براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
میںمن جملہ انوارِ ذاتِ حق اور انوارِ کلامِ حق اور انوارِ رسالت اور انوارِ شانِ تزکیہ اور انوارِ تعلیمِ کتاب و حکمت کی ایک خاص کیفیت بھی شامل ہوتی تھی، وہ یہ کہ آپ کو تلاوت کے وقت حق تعالیٰ کی عظمت اور حق تعالیٰ کی معیّتِ خاصہ کا استحضار رہتا تھا کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اپنے اﷲ کے سامنے منصبِ رسالت کو انجام دے رہا ہوں، یہ استحضار آپ پر ایک خاص احسانی کیفیت طاری کردیتا تھا۔گو تلاوت کے وقت ابھی تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت شروع نہیں ہے لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تلاوت آیات کے معانی اور استحضار کے ساتھ ہوتی تھی،جس کا اثر یہ تھا کہ سامعین کے قلوب سینوں سے نکلے جاتے تھے اور ہر شخص بزبانِ حال یہ شعر پڑھتا تھا ؎ دل چھین لیا ایک جوانِ عربی نے مکی مدنی ہاشمی و مُطَّلبی نے دنیا کی ایک مثال ہے جس سے مقصود ایک بات سمجھانی ہے ورنہ اس مثال کو ممثل لہٗ سے ادنیٰ درجہ کا بھی تعلق نہیں، وہ مثال یہ ہے کہ ایک شاعر جب کسی مشاعرے میں اپنا کلام سناتا ہے تو کلام کے مناسب اپنے اوپر ویسا ہی حال طاری کرلیتا ہے اور اسی حال کے سبب اس کا کلام سامعین کو متأثر کرتا ہے لیکن یہاں تو حال طاری کیا جاتا ہے، فی نفسہٖ مجاز میں کچھ دم نہیں۔عشقِ مجازی کا بودا پن حضرت عارف رومی فرماتے ہیں ؎ چوں رود نورو شود پیدا دخان بفسرد عشقِ مجازی آں زمان جب وہ عارضی اور مستعار روشنی فانی محبوب کے چہرے سے زائل ہوجاتی ہے اور دھواں ظاہر ہوجاتا ہے تو عشقِ مجازی اس وقت مضمحل اور سرد پڑجاتا ہے۔ اور عشقِ حقیقی کی شان یہ ہوتی ہے کہ ہمیشہ اس کا کاروبار گرم اور ترقی پذیر رہتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎