براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
حق تعالیٰ نے فعلِ ہدایت کی نسبت کو اپنی طرف بواسطۂ قرآن فرمایا اور اپنے رسول کی شان میں اس مقام پر کوئی واسطہ نہیں بیان فرمایا لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ آپ ہدایت فرماتے ہیں صراطِ مستقیم کے ساتھ۔ اور تَہْدِیْ پر لامِ تاکید بھی لگا ہوا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ براہِ راست تربیت اور ہدایت جو حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اس کا تحمل صرف انبیاء علیہم السلام کرسکتے ہیں اور امّت کی ہدایت بواسطۂ رسالت ہوتی ہے۔ قرآن کی عجیب شانِ بلاغت ہے۔آگے صراطِ مستقیم کو صراطُ اﷲ ارشاد فرما کرحضور صلی ا ﷲ علیہ وسلّم کی عظمتِ شان بتادی کہ میرا رسول جو تمہارے اندر اس وقت موجود ہے،یہ میرا معمولی احسان نہیں ہے،وہ تمہیں جس راہ پر لانے کے لیے تمہاری تمام بدخلقیوں اور ایذا رسانیوں کو برداشت کررہے ہیں وہ راستہ میرا راستہ ہے، ہمارے رسول تمہیں تمہارے پروردگارِ حقیقی تک پہنچانے کے لیے اپنی جان پر کیسے کیسے غم و الم کے پہاڑ کو برداشت کررہے ہیں۔ میری رحمت کی تو یہ شان ہے کہ میں نے تمہیں جہنم سے بچانے کے لیے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلّم کو تمہارے اندر تمہاری تربیت اور تزکیہ کے لیے وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ؎کے امر کے ساتھ مامور فرمایا ہے یعنی میرا رسول تو نوری ہے،تم فرشیوں کے اندر ایسی عرشی روحِ پاک کو جو میں نے بھیجا ہے وہ اسی لیے کہ ان کی صحبتِ پاک سے تم بن جاؤ۔ ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم کا اصل مذاق تو تبتلِ تامّ کا ہے یعنی خلق سے انقطاعِ تام کرکے ہماری یاد میں مشغولی ہی ان کی اصل غذا ہے لیکن اس کے باوجود میری رحمت نے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلّم کو ان سے مجاہدہ کراکے تمہارے اندر مجالست کا حکم فرمایا ہے تاکہ اس پھولِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلّم کی صحبت میں تمہیں بسا کر تمہارے ہاتھ میں آیندہ خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ کی باگ سپرد کردیں۔ ------------------------------