براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہمارے رسول کی زبان سے سنو گے تب معلوم ہوگا۔ قرآن کو تعلیمِ رسول سے سمجھوگے خود نہیں سمجھوگے۔ وہ مردود ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ ہم قرآن کو بدون تعلیماتِ رسول کے سمجھ سکتے ہیں۔ در حقیقت یہ شخص خوش فہمی کی تعلیم اور تزکیہ کے متعلق احکام کا منکر ہے۔ آپ نے قرآنی آیات کے جو معانی اور مطالب بیان فرمائے ہیں وہی حق تعالیٰ کی مراد ہیں، باقی سب تفسیر بالرائے جو ناموافقِ شرع ہے جہنم میں پہنچانے والی ہے۔ایک شبہ اور اس کا حل بظاہر یہا ں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں ایک جگہ تعلیمِ کتاب و حکمت کو تزکیہ سے مقدم فرمایا گیا ہے تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ پارۂ الٓم میں جس مقام پر یہ تقدم مذکور ہے یہ مقام اسی تقدم کو چاہتا ہے کیوں کہ یہ دعا کا موقع ہے: رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار!اس جماعت کے اندر ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر فرماجو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو کتاب کی اور خوش فہمی کی تعلیم دیا کریں اور ان کو پاک کردیں اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ؎بلا شبہ آپ ہی غالب القدرۃ، کامل الانتظام ہیں۔ اور مقامات پر تزکیہ کو مقدّم فرمایا گیا ہے کیوں کہ موقعِ امتنان اسی امر کو مقتضی ہے۔ کلام کا مقتضیٰ حال کے مطابق ہونا ہی کلام کی بلاغت ہے۔ حق تعالیٰ نے تعلیم اور تزکیہ کی نسبت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اشارہ فرماکر اپنی رفعتِ شان بیان فرمادی کہ درحقیقت معلّم اور مزکّی ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم ہیں اور آپ کی تعلیم اور تزکیہ کا کمال یہ ہے کہ آپ کے شاگردوں کی اتباع کرنا عین رسول کے حکم میں ------------------------------