براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
صورت عقلاً نہیں ہوسکتی۔ اب پہلی اور دوسری صورتوں کے باطل ہونے اور صرف تیسری صورت کی صحت اور حقانیت کو مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت کرتا ہوں۔قانون سازی کا حق صرف خالقِ کائنات کو ہے دلیلِ اوّل چوں کہ ہر انسان کی طبیعت،اس کا مزاج،اس کی عقل و فہم الگ الگ ہے اس لیے اگر سارے عُقلاء جمع ہوکر باہمی مشورے سے قانون سازی کرتے تو اختلافِ طبیعت، اختلافِ مزاج، اختلافِ عقل و فہم کے سبب ہر شخص کی رائے کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا لا بدی امر تھا اور قاعدہ ہے کہ اِذَا تَعَارَضَا تَسَاقَطَا یعنی ہر تعارض میں یہ عقلاً تساقط لازم ہے، پس یہ صورت عقلاً ناممکن ثابت ہوئی۔ نیز چوں کہ فطرتِ بشریہ میں خود پسندی، تعلّی اور خودرائی کا مرض بھی ہے اس لیے ہر شخص چاہتا کہ میری رائے مقبول ہو، کوئی شخص اپنے ہی جیسے بشر سے اپنی رائے کو مسترد اور نامنظور کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ پس نتیجہ یہ ہوتا کہ مجلسِ شوریٰ جوتے بازی اور جنگ و خونریزی کی مجلس بن جاتی۔ چناں چہ کبھی اخباروں میں اسمبلی ہالوں میں کرسی بازی اور جوتے بازی کی خبریں اسی علّتِ مذکورہ کے تحت نشر ہوا کرتی ہیں۔دلیلِ ثانی دوسری دلیل یہ ہے کہ قانون سازی کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ جن طبائعِ مختلفہ اور امزجۂ مختلفہ کے لیے قانون بنایا جاوے ان طبائع اور امزجہ کی حقیقت کا پورا پورا علم بھی ہو۔ اور اشیاء کی حقائق کا صحیح علم پیدا کرنے والے ہی کو ہوسکتا ہے۔ چناں چہ بڑے بڑے فلاسفہ نے ادراکِ حقائقِ اشیاء سے اپنا عاجز ہونا ظاہر کردیا۔ شیخ بوعلی سینا لکھتا ہےکہ نَعَمْ تَنْقِیْحُ حَقِیْقَۃِ الْاَشْیَاءِ عَسِیْرٌ جِدًّایعنی اشیاء کی حقیقت کی تنقیح یقیناًدشوار ہے۔ جس ذاتِ پاک نے ایک قطرۂ منی کے اندر بینائی، شنوائی، عقل وفہم، غصّہ و شہوت، بخل و سخاوت، حلم و تواضع جیسے اخلاقِ حمیدہ و رذیلہ کو