براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ یہ لوگ جو توحید کے منکر ہیں تو کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یایہ خود اپنی ذات کے خالق ہیں: اَمۡ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ بَلۡ لَّا یُوۡقِنُوۡنَ ؎ یا یہ کہ نہ اپنے خالق ہیں نہ بلا خالق مخلوق ہوئے ہیں لیکن انہو ں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ اور صفتِ خالقیتِ مختصۂ باری تعالیٰ میں شریک ہیں۔ (بیان القرآن، پ:۲۷) ان آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے ملحدین اور مشرکین کو ان تینوں سوالوں کے اندر اس طرح گھیرا ہے کہ قیامت تک اس سے نکل نہیں سکتے ہیں۔ کوئی دہریہ اور ملحد ان تینوں سوالات کا جواب قیامت تک نہیں دے سکتا ہے۔ ہمارے دلائل ٹوٹ سکتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ کے استدلال کوکون توڑ سکتا ہے۔ان آیات کے اندر حق تعالیٰ نے منکرینِ توحید کویہ بتایا ہے کہ کفر اور شرک کے اختیار کرنے کی جرأت وہی انسان کرسکتا ہے جو (۱)یا تو اپنے کو کسی خالق کا محتاج نہ سمجھے (۲)یااپنے کو کسی خالق کا محتاج تو سمجھتا ہے مگر خالق اپنے ہی کو مانے (۳) یا یہ کہ اپنے کو کسی خالق کا محتاج تو سمجھتا ہے لیکن اس خالق کو واحد نہ جانے بلکہ کسی دوسرے کو بھی خالقیت میں شریک جانے۔ اِن ہی تین شقوں میں حق تعالیٰ نے منکرینِ توحید کو گھیر لیا ہے اور ہر شق کا باطل ہونا انسان کے مشاہدات میں سے ہے۔بطلانِ شقِّ اوّل پہلی صورت یہ کہ کیایہ لوگ بدون کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں۔ اس کا باطل ہونا ظاہر ہے کہ انسان ایک وقت میں موجود نہ تھا تو پھر بد ون کسی موجدِ کے وجود میں آنا عقلاً محال ہے، بقاعدۂ عقلیہ ہر ممکن ترجیح وجود میں محتاج مُرجّح کا ضرور ہوگا۔ دنیا میں اس کا مشاہدہ موجود ہے کہ کوئی اثر بد ون مؤثّر کے اور کوئی حرکت بدون محرّک کے اور کوئی فعل بد ون فاعل کے اور کوئی معلول بدون علّت کے ------------------------------