براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہر کجا دردے دوا آنجا رود ہر کجا رنجے شفا آنجا رود جہاں درد ہوتا ہے وہیں دوا پہنچتی ہے، جہاں مرض ہوتا ہے وہیں شفا پہنچتی ہے۔ یہ تلاوت اور تزکیہ کا ربط ہے جو حق تعالیٰ نے میرے دل میں حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے صدقے میں وارد فرمایا ہے۔ زبان میری ہے اور دل ان کا ہے۔ قرآنِ پاک کے حروف میں اﷲ تعالیٰ نے اثر رکھا ہے۔ حروف کے انوار الگ ہیں اور معنیٰ کے انوار الگ ہیں۔ قرآن کا نور غیر مخلوق ہے اور ترجمہ مخلوق ہے۔ جو نسبت حادث اور قدیم، ممکن اور واجب میں ہے وہی نسبت نظمِ قرآن اور اس کے ترجمے میں ہے۔ وہ جاہل اور پیٹ بھر کے جاہل ہیں جو کہتے ہیں قرآن کی تلاوت بدون ترجمہ سمجھے ہوئے بے کار ہے۔ دونوں جہاں میں قرآن سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے، کیوں کہ تمام نعمتیں مخلوق ہیں، صرف قرآن وہ نعمت ہے جو غیر مخلوق ہے۔ حضرت عارف رومیرحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ نورِ خورشیدم فتادہ بر شما لیک از خورشید ناگشتہ جدا مولانا نے قرآنِ مجید کے غیر مخلوق ہونے کو ایک عجیب مثال سے واضح فرمایا ہے۔ قرآن کی طرف سے شعرِ مذکور میں حکایتاً ارشاد ہے کہ میں نورِ خورشید ہوں اور نورِ خورشید کی طرح تم لوگوں پر تاباں اور روشن ہوں لیکن خورشید سے جدا بھی نہیں ہوں یعنی نہ تو خالق ہوں اور نہ خالق کی ذات سے جدا ہوں، تو پھر کیا ہوں؟ خالق کا نور ہوں۔ قرآن سے جس قدر قرب نصیب ہوتا ہے اتنا کسی عبادت سے قرب نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ منتہی کے لیے صرف تلاوتِ قرآن ہی کا معمول رہ جاتا ہے یعنی اور اذکارو اوراد بہت تھوڑے رہ جاتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن سے تو دنیا میں قرب نصیب ہوتا ہی ہے لیکن جنّت میں بھی قرآن کی تلاوت سے مراتبِ قرب طے ہوں گے۔ جنت میں اور کسی عمل سے ترقی نہ ہوگی کیوں کہ وہ دارالعمل نہیں ہے لیکن جنہوں نے یہاں جس قدر قرآن یاد کرلیا ہے جنت میں حکم ہوگا اِقْرَاْ وَارْتَقِ قرآن پڑھتے