براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
جاؤ اور چڑھتے جاؤ یعنی تلاوت کرتے جاؤ اور مدارجِ رفیعہ پر ترقی کرتے چلے جاؤ، جس کو جتنا یاد ہوگا اسی قدر وہ پڑھتا ہوا درجاتِ قرب کو طے کرلے گا۔ اس دن حفظِ قرآن کی قدر معلوم ہوگی۔ یہ قرآن کا عجیب اعجاز ہے کہ دنیا میں بھی قرب کا ذریعہ تھا اور جنت میں بھی قرب کاذریعہ ہوگا، اور کسی معجزے کو یہ شرف حاصل نہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی زبانِ مبارک سے قرآن کی تلاوت کا اثر حضرات صحابہ رضوانُ اﷲ علیہم اجمعین کے قلوب میں ایسا پیوست ہوگیا کہ خود حضرات صحابہ رضوانُ اﷲ علیہم اجمعین کی تلاوت سے وہی فیضِ تلاوت ظاہر ہونے لگا حتّٰی کہ کفّارِ قریش نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ کی تلاوت سے ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارے بیوی بچے مسلمان ہوجائیں گے لہٰذا آپ بلند آواز سے تلاوت نہ کیا کیجیے۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا،آپ نے فتنے کے خوف سے عہد کرلیا لیکن جب حق تعالیٰ کی محبّت کا جوش ہوا تو آپ سے ضبط نہ ہوسکا اور محبّت نے بآوازِ بلند تلاوت فرمانے پر مجبور کردیا ؎ کہاں تک ضبطِ بےتابی کہاں تک پاسِ بدنامی کلیجہ تھام لو یارو کہ ہم فریاد کرتے ہیں تابِ زنجیر ندارد دلِ دیوانۂ ما چوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم افضل الخلائق اور سید الرسل ہیں اس لیے آپ کے لیے افضل المعجزات معجزہ پہلے ہی سے منتخب فرمالیا گیا تھا اور آپ کے لیے امّت بھی وہ منتخب فرمائی گئی جو تمام امتّوں کی سردار ہے۔کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اس پر دال ہے ؎ لَمَّا دَعَا اللہُ دَاعِیْنَا لِطَاعَتِہٖ بِاَکْرَمِ الرُّسُلِ کُنَّا اَکْرَمَ الْاُمَمٖ اور اﷲ تعالیٰ نے ان نعمتوں کے لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کو پہلے ہی سے منتخب فرمالیا تھا ؎ چھانٹا وہ دل کہ جس کی ازل سے نمود تھی پسلی پھڑک گئی نظرِ انتخاب کی قرآن کا ایک نادر اعجاز یہ بھی ہے کہ وہ نظماً اور معناً تحریف سے محفوظ ہے: