براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے سینۂ مبارک میں تزکیہ اور تعلیمِ کتاب اور حکمت کا جو سمندر موجزن تھا اس کی لہریں ا س تلاوت میں اپنا کرشمہ دکھا رہی تھیں، جس طرح آفتاب نکلنے سے پہلے اس کے انوار مطلعِ افق پر پہلے ہی سے اپنی آمد کے آثار ظاہر کرنے لگتے ہیں اسی طرح تزکیہ اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا جو آفتاب تلاوت کے بعد طلوع ہونے والا تھا اس کے انوار پہلے ہی سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تلاوت کے اندر اپنی تابانی دکھا رہے تھے،جس کا اثر حضرات صحابہ پر یہ ہوا کہ ان کے سینوں میں اتنے انوار تلاوت کے ذریعے پہنچ گئے کہ ان پر کفر اور شرک کی تاریکی اور گندگی بالکلیہ منکشف ہوگئی کیوں کہ ہر شئے اپنی ضد سے متعارف ہوجاتی ہے۔ ظلمت کا ادراک نور کے تقابل سے ہوتا ہے۔ جب مریض کو اپنے امراض کا پتا چل جاتا ہے تو اس کو علاج کی فکر لگ جاتی ہے۔ چناں چہ حضرات صحابہ کو بعد انکشافِ ظلماتِ کفر و شرک کے اپنے علاج کی فکر دامن گیر ہوگئی اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رحمت اسی فکر اور طلب کی منتظر تھی، اور تلاوت میں اسی فکر اور طلب کے پیدا کرنے کی طرف پوری توجہ فرمائی تھی۔ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے ان کے دِلوں میں اس حالتِ منتظرہ کو اپنی فراست و بصیرت سے محسوس فرمالیا تو آپ کی رحمت یُزَکِّیْہِمْ میں مشغول ہوگئی۔ فکر اور طلب کا انتظار کیوں تھا؟ اس لیے تھا کہ ٹھنڈے پانی کی قدر اور اس کا نفع پیاس کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ آبِ کم جو تشنگی آور بدست تا بجوشد آبت از بالا وپست تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید بعالَم تشنگاں مولانا فرماتے ہیں کہ پانی کم ڈھونڈو، پہلے پیاس اپنے اندر پیدا کرو تاکہ پیاس کی حالت میں جو پانی بدن میں داخل ہو اس کی شادابی تمہارے ظاہر و باطن سے جوش مارے۔ پیاسے اگر جہاں میں پانی ڈھونڈتے ہیں تو پانی بھی عالَم میں پیاسوں کو ڈھونڈتا ہے ؎