براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
گرچہ تفسیرِ زباں روشن گر ست لیک عشقِ بے زباں روشن تر ست ترجمہ: زبان سے محبت کی تفسیر اگرچہ روشن ہے لیکن عشقِ کامل اپنے ظہور میں محتاجِ زباں نہیں۔ صاحبِ قصیدہ فرماتے ہیں ؎ یَحْسَبُ الصَّبُّ اَنَّ الْحُبَّ مُنْکَتِمٗ مَا بَیْنَ مُنْسَجِمِ مِنْہُ وَ مُقْتَرِمٗ ترجمہ: کیا عاشق یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا عشق مخفی رہ سکے گا درآں حالاں کہ اس کی آنکھیں اشکبار اور اس کا قلبِ مشتعل اس کے عشق پرگواہ ہیں (اور دو گواہوں سے بات ثابت ہوجاتی ہے) کبھی زبان ساکت ہوتی ہے اور اس کا حال ناطق ہوتا ہے ؎ ترے جلوؤں کے آگے ہمّتِ شرح و بیاں رکھ دی زبان بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میاں اشرف علی صاحب! میں لوگوں سے باتیں کرتا ہوں تو ا س وقت بھی آپ میرے قلب کی طرف متوجہ رہا کیجیےکیوں کہ میرا قلب اس وقت بھی حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوتا ہے۔ جب امّتی کا سکوت ہادی ہوتا ہے تو نبی کا سکوت کیوں کر ہادی نہ ہوگا ؎ خامش اند و نعرۂ تکرارِ شاں می رود تا یار و تختِ یارِ شاں ترجمہ: اﷲ والے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے باطنی درد اور محبت کے نعروں کا تکرار محبوبِ حقیقی تک پہنچتا رہتا ہے۔ چوں کہ اﷲ والوں کے قلوب اﷲ کی محبت سے معمور ہوتے ہیں اس لیے ان کے پاس بیٹھنے والوں کے دلوں میں ان کی محبت کے فیض سے حق تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے