براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوکر ان سے اِعراض کرکے اصل اور حقیقی بہاریعنی اﷲ تعالیٰ کی محبت اور معرفت میں مشغول ہوجائے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ شد صفیرِ باز جاں در مرجِ دیں نعرہ ہائے لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ دین کی چراگاہ میں عارفین کی روحوں کی آواز لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ کے نعرے ہیں یعنی میں فنا ہونے والی مخلوقات سے محبّت نہیں کروں گا۔ خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ رنگ رلیوں پہ زمانے کی نہ جانا اے دل یہ خزاں ہے جو بہ اندازِ بہار آئی ہے اور فرمایا ہے کہ ؎ لطف دنیا کے ہیں کے دن کے لیے کھو نہ جنت کے مزے ان کے لیے یہ کیا اے دل تو بس پھر یوں سمجھ تو نے ناداں گل دیے تنکے لیے نفس اور شیطان کے بُرے تقاضوں اور دنیا کے بے ضرورت مشاغل سے ارواح کو نکال کر حق تعالیٰ کی محبت اور معرفت کی طرف جذب کرنا ان ہی مقبول اور پاکیزہ بندوں کا کام ہے جو یا تو خود انعامِ نبوّت و رسالت سے نوازے گئے ہوں یا ان کی صحبت کے فیض یافتہ ہوں۔ ان حضرات کی روح انوارِ معرفت اور محبتِ الٰہیہ کے فیض سے خود بھی چاہِ دنیا سے آزاد ہوتی ہے اور اپنے فیضِ محبت سے دوسری محبوس روحوں کو بھی چاہِ دنیا سے نکال لیتی ہے۔ اگر یہ خود چاہِ دنیا سے نکلے ہوئے نہ ہوتے تو دوسروں کو کب آزاد کراسکتے تھے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ کےدہد زندانیے دراقتناص مردِ زندانی دیگر را خلاص