براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ: اے اطمینان والی روح! تو اپنے پروردگار کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اپنے پروردگار سے خوش ہے اور تیرا پروردگار تجھ سے خوش ہے پھر تو میرے بندوں میں یعنی نیکوکار بندوں کی جماعت میں داخل ہوجا۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے روحانی ارتقاء اور روحانیت کے درجۂ کمال سے بندوں کو مطلع فرمایا ہے تاکہ بندے غلط فہمی سے مادّی ترقیات کو روحانی ترقی نہ سمجھ بیٹھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے نفسِ مطمئنہ فرماکر روح کے درجۂ کمال کا پتا بتادیا یعنی روح کا کمال یہی ہے کہ دنیا میں اس کو اپنے پروردگار کی یاد سے چین نصیب ہوگیا ہو۔ روح کا دوسرا کمال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضیّات پر عمل کرتے کرتے خود اﷲ کی مرضیہ بن جائے یعنی پسندیدہ بن جائے، اور جس روح سے اﷲ راضی ہوجاتے ہیں تو اس روح کو اپنی ذاتِ پاک سے بھی راضی فرمادیتے ہیں۔ اس آیت میں خطابِ راضیہ کو خطاب ِمرضیہ سے مقدم فرماکر یہ بتادیا کہ اے روح! دنیا کی زندگی میں چوں کہ تجھے صَرف میری ہی ذات سے چین ملتا تھا اور ہر سانس کو میری مرضیات میں صرف کیا تھا، اور اب تیرے چل چلاؤ کا وقت ہے اس لیے اب میں تیری رضا کو مقدّم کرتا ہوں یعنی اب تیری تما م خواہشات پوری کی جائیں گی، تیری خواہشات چاہے تھک جائیں لیکن میری عطا دینے سے نہ تھکے گی۔ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ ؎ فرمایا ہے اور دوسری جگہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ؎ فرمایا ہے وہاں اپنی رضا کو مقدم فرمایا ہے۔ قرآنِ پاک کی عجیب بلاغت ہے کہ راضیہ کی تقدیم سے روح کا کس درجہ بلند مقام ظاہر ہورہا ہے کہ انتقال کا وقت ہے، اولادو بیوی، خویش و اقارب سے جدائی ہورہی ہے مگر اس روح کو اپنے اﷲ سے ملنے کی کس درجہ خوشی ہے کہ اس کو حق تعالیٰ نے مقدم بیان فرمایا۔ اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ یہ روح اپنے اعمالِ حسنہ کی برکت سے مرضیّہ تو پہلے ہی سے تھی لیکن اب چوں کہ عالم بدل رہا ہے اور دنیا میں اس نے اپنی خواہشات کو میری مرضیّات میں جلا بھنا دیا تھا، اس لیے اب اس مجاہدے کا پھل عالمِ آخرت میں اس کو یہ دیا جائے گا کہ اب اس کی ہر رضا ہر خواہش کو میں پوری کروں ------------------------------