براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ چوں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی سفارت سے حق تعالیٰ نے آپ کو قرآن کی تعلیم فرمائی تھی اس لیے اس آیت میں وساطت اور سفارت کا ذکر فرمادیا۔ پس زبان تو جبرئیل علیہ السلام کی تھی اور بولی میاں کی تھی جیسا کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ سے اس مفہوم پر دلالت ظاہر ہے۔عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی کی جو تفسیر حضرت مرشدی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان القرآن میں فرمائی ہے اس کو دیکھنے کے بعد بے حد مسرّت ہوئی کیوں کہ اس میں میری تقریر کی تائید موجود ہے۔ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ بیان القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی میں حق تعالیٰ شانہٗ نے واسطۂ نزولِ وحی کا ذکر فرمایا ہے یعنی ان کو ایک فرشتہ اس وحی کی منجانب اﷲ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے، اور اکتساب سے طاقتور نہیں بلکہ پیدایشی طاقتور ہے جیسا کہ ایک روایت میں خود جبرئیل علیہ السلام نے اپنی طاقت کا بیان فرمایا ہے کہ میں نے قومِ لوط علیہ السلام کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان کے قریب جاکر چھوڑدیا۔ مطلب یہ کہ یہ کلام کسی شیطان کے ذریعے آپ تک نہیں پہنچا کہ کاہن ہونے کا احتمال ہو بلکہ فرشتے کے ذریعےآیا ہے اور شایدعَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی کے ساتھ موصوف فرمانے میں یہ مقصود ہو کہ اس کا احتمال بھی نہ کیا جائے کہ شاید اصل میں فرشتہ لے کر چلا ہو مگر درمیان میں کوئی شیطانی تصّرف ہوگیا ہو پس اس میں اشارہ ہوگیا جو اب کی طرف کہ وہ نہایت شدید القویٰ ہیں،شیطان کی مجال نہیں کہ ان کے پاس پھٹک سکے۔ پھر ختمِ وحی کے بعد خود حق تعالیٰ نے اس کو بعینہٖ ادا کردینے کا وعدہ فرمایا ہے اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے ذمّے ہے آپ کے قلب میں اس قرآن کا جمع کردینا اور آپ کی زبان سے اس کا پڑھوا دینا۔ (از بیان القرآن، سورۂنجم، پارہ: ۲۷) پس حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے تفسیرعَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا واسطۂ نزولِ وحی ہونا اور ان کا وحی کی منجانب اﷲ تعلیم کرنا تحریر فرمانے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت میں تعلیم کی نسبت جبرئیل علیہ السلام کی طرف بطورِ سفارت ہے یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام سفیرِ محض تھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے معلّم نہ