براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اس پختہ رائے کو توڑدیتا ہے۔اور اپنے جہل اور نادانی پر پشیمان ہوتا ہے، اور یہ فسخِ ارادہ جس طرح سببِ خارجی اور مانعِ خارجی سے ہوتا ہے کبھی کبھی بدون کسی سببِ خارجی کے محض ذہنی اور دماغی مقدماتِ فکر کی ترتیب بدل جانے سے بھی ہوتاہے۔ چناں چہ ہر انسان کا خود یہ اپنا مشاہدہ ہے کہ وہ تنہائی میں بیٹھا ہوا بڑے اہتمام سے کسی اہم معاملے میں غورو فکر کرکے ایک رائے کو صائب اور صحیح سمجھ کر اسی کے مطابق ارادۂ عمل مصمّم کر لیتا ہے۔ ذرا ہی دیر میں بد ون کسی خارجی حادثے و آفت کے محض اس کا ذہن اور تخیّل اس کے اس مفید ارادے پر تنقید شروع کرکے اس کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔ روز مرّہ اسی طور پرہر انسان اپنے اندر کبھی موانعِ خارجیہ کے سبب کبھی موانعِ ذہنیہ کے سبب نسخِ ارادہ وتبدیلِ رائے کا شرمناک واقعہ دیکھتا رہتا ہے۔ اور اس کو اپنے جہل اور کمزوری کے اس سبق کا تکرار روز مرّہ اس لیے کرایا جاتا ہے کہ انسان اپنے اس ضعفِ جہل سے اپنے مخلوق ہونے پر اور اپنے محتاج ہونے پر استدلال کرکے وجودِ صانعِ حقیقی پر ایمان لائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ؎ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اب اگرانسان کی اس کمزوریٔ مذکور کے با وجود اس کے سپرد قانون سازی کا کام کر دیا جاتا تو انجامِ کار یہ ہو تا کہ وہ قانون ایک تماشا اور لعبۂ اطفال ہو جاتا ۔ کبھی خارجی حوادث سے ٹکراکر ٹوٹ جاتا، کبھی ذہنی میدان کا گیند بنتا اور نفس پرست انسانوں کے لیے خواہشاتِ نفسانیہ کا بازار گرم کرنے کا بہترین موقع ہاتھ لگ جاتا۔ پس عقلاًقانون سازی کا حق ایسی ذاتِ پاک کو ہے جسے قیامت تک آنے والے انقلابات وحوادثات کا اختلافِ طبائعِ بشریہ امور ِمعاش و امورِ معاد کے جملہ مصالح کاعلم ِکامل ومحیط ہو،اس کا علم ِازلی وابدی تما م مخلوقات کے ماضی و حال و مستقبل سے باخبر ہو۔یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ کے بنائے ہو ئے قانون میں تغیرو تبدل نہیں ہوتا۔ارشاد فرماتے ہیں: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا ؎ اور آپ اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے۔ اب ------------------------------