براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
عجیب حق تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے، قرآن کی ایک آیت کی تفسیر وتسہیل دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ؎ خواہشاتِ نفسانیہ کا تو اقتران ہی ہے ان خواہشات کو حاضرکیا گیا، جبکہ لفظِ احضار بتا رہاہے جس میں تمہارانفع یہ ہے کہ تم سے مجاہدہ کراکے تم کو درجاتِ قرب سے نواز دینا ہے۔ لیکن ہم تو تمہاری رگِ گردن سے بھی قریب تر ہیں،تمہاری حیات کے موقف سے بھی ہم قریب تر ہیں اور ظاہر ہے کہ اَ لْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ اقرب کا حق زیادہ ہوتا ہے احضار اور قرب کے فرق پر غور کرو اور پھر دیکھو کہ وہ احضار جملہ فعلیہ کے ساتھ ہے جس میں حدوث اور زوال کی توقع ظاہر ہے اور نَحْنُ اَقْرَبُ میں جملہ اسمیہ ہمارے تعلّق کے دوام اور استحکام پر کس درجہ دلالت کر رہا ہے، نیز ان خواہشات کاعلاج بھی حق تعالیٰ نے آسان فرمادیا ہے ۔ارشاد فرماتے ہیں: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ؎ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو۔ اب کوئی سوال کر سکتا ہے کہ میاں! ہم آپ سے کس طرح ڈریں، ڈرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ؎ کس طرح فریاد کرتے ہیں بتادو قاعدہ اے اسیرانِ قفس میں نو گر فتاروں میں ہوں حق تعالیٰ متصلاًاس حکم کے بعد فرماتے ہیں: ڈرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صادقین کی صحبت میں رہ پڑو۔صادقین فرمایا ہے۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ صدیقین کیوں نہیں فرمایا ۔اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔اس علمِ عظیم کو حق تعالیٰ نے مجھے اس عمر میں جبکہ اٹھاسی سال میں قدم رکھ چکا ہوں عطا فرمایا ہے۔ صادقین کے اندر جو صدق ہے ان کی زبان سے بھی اور ان کے ہر عضو سے ہے،صدق کے معنیٰ حکایت کرنا مطابق محکی عنہ کے، ہر عضو کا ------------------------------