براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے یہ حکم نافذ فرمایا کہ طواف میں کافروں کے سامنے خوب اکڑ کر سینہ نکال کر چلو تاکہ چال سے دلیری اور قوت ظاہر ہو اور کافروں پر رعب وہیبت قائم ہو۔اس وقت میں تکبّر اور ریا دونوں رذائل سے کام لیا گیا،اسی کا نام مصرف بدل دینا ہے اور اصلاح کا حاصل یہی ہے۔حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ رذائلِ نفسانیہ باعتبار اپنی ذات کے مذموم نہیں کیوں کہ یہ مخلوقاتِ الٰہیہ ہیں یہ باعتبار غلط مصرف کے مذموم ہیں۔ اگر ان کا صحیح مصرف کی طرف امالہ کرلیا جائے تو یہی رذائلِ نفسانیہ حق تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اگر ہمارے اندر خواہشات ہی نہ ہوتے تو ہم خدا تک نہ پہنچ سکتے۔ کیوں کہ تقویٰ جو شرطِ ولایت ہے ان ہی خواہشاتِ نفسانیہ کے ساتھ جہاد سے پیدا ہوتا ہے ۔ ایک نامرد اگر زنا سے بچتا ہے تو اس کا کیا کمال ہے۔ ایک اندھا اگر بدنظری سے بچتا ہے تو اس کا کیا کمال ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر شہوت و غضب انسان میں نہ ہو تو وہ حق تعالیٰ کے راستے کو قطع نہیں کرسکتا۔ حق تعالیٰ نے اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ؎ میں حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی جو شدّت کافروں کے مقابلے میں ارشاد فرمائی ہے وہ دراصل وہی مادۂ بغض و غضب تھا جو پہلے نفس کے لیے خانہ جنگیوں میں صَرف ہوتا تھا اب سیّدالمرسلین صلی اﷲ علیہ وسلّم کی صحبتِ پاک نے اس کا امالہ کردیا اور وہی غضب و بغض اﷲ کی رضا کے لیےاﷲ کے دشمنوں پر صَرف ہونے لگا۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ از و حمامِ تقویٰ روشن است نیست باطل ہرچہ یزداں آفرید از غضب و از حلم و از نفح مکید خواہشاتِ نفسانیہ کی مثال مثل بھٹی کے ہے تقویٰ کا حمام ان ہی سے روشن ہے۔یعنی خواہشات حق تعالیٰ نے ہمیں بطور ایندھن کے دی ہیں تاکہ ان کو حق تعالیٰ کی مرضی میں ------------------------------