براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ودیعت فرمایا ہے وہی ذاتِ پاک ان مادّوں کی حکمتوں سے کماحقہٗ علیم و خبیر ہے کہ یہ مادّے کن مقاصد کے تحت پیدا کیے گئے ہیں۔اپنی مخلوق کے ہر ہر ذرۂ اتصال و انفصال کی حکمت پیدا کرنے والا ہی جان سکتا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ؎ بھلا وہ ہی نہ جانے جس نے پیدا فرمایا ہے اور وہ باریک بین، پورا با خبر ہے۔ جب ہم کسی چیز کو بناتے ہیں تو بنانے سے پہلے اس بننے والی چیز کا مقصد اور اس کی غرض دل میں پیدا ہوتی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ہمارے دل میں اس چیز کے بنانے کا تقاضا پیدا ہوتا ہے پھر اسی مقصد کے لحاظ سے ہم ایسے اجزاء کا انتخاب کرتے ہیں جن اجزاء کی ترتیب و ترکیب اس مقصد کو حل کرسکے۔ حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ؎ اس آیت میں لِیَعْبُدُوْنِ معنیٰ میں لِیَعْرِفُوْنِ کے ہے۔حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے یہی تفسیر فرمائی ہے اور اسی تفسیر کو صاحبِ جلالین نے بھی لیا ہے۔ انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے انسان کو پیدا کرنے کا یہ مقصد علمِ الٰہی میں متعیّن تھا پس اسی مقصد کے لحاظ سے انسان کی پیدایش کے لیے ایسے ترکیبی اجزاء حق تعالیٰ کے علم و حکمت نے پیدا فرمائے جو معرفت اور محبّتِ الٰہیہ کے لیے کارآمد ہوسکیں، اب ظاہر ہے کہ ان اعضائے انسانیہ کی جس نے تخلیق فرمائی ہے اور جس نے ان کے اندر اخلاقِ حمیدہ و رذیلہ کے مادّے ودیعت فرمائے ہیں وہی ان کے مصارفِ صحیحہ وغیرصحیحہ جانتا ہے ؎ نیست باطل ہرچہ یزداں آفرید از غضب و از حلم و از نفح مکید چوں کہ انسان اپنی طبیعت اور مزاج کی یقینی حقیقت سے بے خبر ہے اور اطباء کی رائےامزجۂ ------------------------------