براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ انسانیت کا تقاضا قانون کی ضرورت کو چاہتا ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر عقل ہے اورعقل عربی لغت میں عقال سے ہے جس کے معنیٰ رسی کے ہیں۔ پس انسانیت کا جو شرف ہے اس کی حفاظت و بقا کا مدار یہی ہے کہ وہ عقل کی رسی میں بندھا رہے۔ حق تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا فرمایا ہے،یہی وجہ ہے کہ انسان دنیا کی تمام چیزوں کو مسخّر کرلیتا ہے۔حتّٰی کہ سانپ، ہاتھی، شیر جیسے خوفناک اور خطرناک جانوروں کو بھی مسخّر کرلیتا ہے۔ لیکن انسان پر کسی کی تسخیرنہیں۔ جب تمام مخلوقات پر انسان کی تسخیر مشاہد ہے تو اس کی شرافت اور امتیاز کا تقاضا ہے کہ یہ کسی قانون کے تحت رہے کیوں کہ بے قانون زندگی جانوروں کی زندگی ہوتی ہے یا پاگلوں کی ہوتی ہے،چوں کہ اس عالم کو حق تعالیٰ نے امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے انسان کے اندر خواہشات پیدا فرمائی ہیں، پس اگران خواہشات کی روک تھام کے لیے قانون نہ ہو تو تمام عالم میں فساد پیدا ہوجائے کیوں کہ انسان پر کسی اور حیوان کو ایسی عقل اور قدرت نہیں دی گئی ہے کہ وہ انسان پر حکمرانی کرے اور اس کو جرائم سے بچائے، برعکس انسان، سانپ، بچھّو، شیر سبھی موذی اور غیر موذی حیوانات پر قابو حاصل کرکے ان کو جبراً اضرار اور جرائم سے روک سکتا ہے۔ پس عقلاً یہ ثابت ہوا کہ تمام مخلوقات میں صرف انسان کو قانون کا مکلّف کرکے تمام عالم میں امن قائم کیا جاسکتا ہے اور جب یہ بات عقلاً ثابت ہوگئی کہ انسدادِ جرائم اور قیامِ امن اور حفاظتِ شرفِ انسانیت بدون قانون کے ناممکن ہے تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون بنائے کون؟ قانون سازی کے بارے میں تین صورتیں ہیں: ۱) ایک انسان تمام بنی نوع انسان میں ایسا منتخب کیا جائے جو سب سے عاقل ہو اور معاشرۂ انسانیت کے صحیح اصول کی تدوین کرے۔ ۲) دوسرے یہ کہ اجتماعی طور پر بہت سے افراد بنی نوع انسان سے منتخب کیے جائیں اور وہ لوگ باہمی مشورے سے معاشرۂ انسانی کے لیے قانون سازی کریں۔ ۳) تیسرے یہ کہ وہ ذات ِپاک قانون سازی کرے جو تمام انسانوں کی خالق اور مالک ہے اور انسانی طبائع سے کما حقہٗ واقف و خبر دار ہے۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ کوئی اور