براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
مضرّتوں کے علم ہوجانے کے بعد اب تو باز رہوگے اب تو سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اسی طرح حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے بندوں کو جب شراب کے متعلق اتنے نقصانات سے آگاہ فرمادیا کہ (۱)شراب اس قدر گندی چیز ہے کہ اس کا تذکرہ جوا اور بت اور قرعے کے تیر کے ساتھ صفِ اوّل کا درجہ رکھتا ہے۔ (۲)شراب گندی چیز ہے۔ (۳)شراب شیطانی عمل ہے۔ (۴) شراب نوشی سے اجتناب کا حکم دیاہے۔ (۵)شراب نوشی کے ساتھ تم کو فلاح میسّر نہیں ہوسکتی ہے۔ (۶)شراب کے ذریعے شیطان تمہارے آپس میں دشمنی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ (۷) شراب کے ذریعے شیطان تم کو خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اتنے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کرنے کے بعد اب فرماتے ہیں(۸) فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ سو اب بھی باز آؤگے۔ ہر مسلمان غور کرسکتا ہے کہ قرآن کی مذکورہ بالا آیتوں سے شراب کا حلال ہونا ثابت ہوتا ہے یا حرام ہونا؟ کیا کسی جائز اور حلال شئے سے بھی الگ رہنے اور باز آجانے کی ہدایت کی جاتی ہے؟ کیا قرآن نعوذباﷲ کسی مجنوں کا کلام ہے؟ بریں عقل و دانش بباید گریست ترمذی شریف میں روایت ہے کہ یعنیفَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ (سو اب بھی باز آؤگے) کو جب حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے سنا تو سنتے ہی عرض کیا: اِنْتَہَیْنَا یعنی ہم باز آئے۔ اور بخاری شریف میں یہ بھی روایت ہے کہ اس وقت جتنی شرابیں موجود تھیں سب پھینک دیں اور جن برتنوں میں شراب پیا کرتے تھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے ان برتنوں میں شربت رکھنے کو بھی منع فرمادیا تاکہ شراب سے دلوں میں سخت نفرت پیدا ہوجائے۔ بعض نادان یہ کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں شراب کے متعلّق لفظ حرام موجودنہیں ہےحالاں کہ جب شراب کے متعلق قرآن میں(۱) ناپاک ہونا (۲)شیطانی عمل ہونا(۳) اثمِ کبیریعنی گناہ ِکبیرہ ہونا (۴)بت پرستی کے ساتھ مذکور ہونا