براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ نورانی مقبول بندہ جس کی صحبت میں تم بیٹھو گے وہ تمہیں حق تعالیٰ کے راستے سے آگاہ کرے گا اور اپنے قلب کے انوار کو اپنے الفاظ کے ہمراہ کرکے تمہارے دلوں میں پہنچا دے گا۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے منعم علیہم بندوں کو مغضوبین اور ضالّین سے پہلے ذکر فرمادیا تاکہ ان مقبول بندوں کے انوار میں مغضوبین اور ضالّین کی ظلمتوں کا ادراک اور شعور ہوجاوے۔ ظلمت کی معرفت موقوف ہے روشنی پر تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِہَا ہر شئے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اس وجہ سے موقوف علیہ کو مقدّم فرمادیا گیا۔ نیز مقصود اصل میں نفع ہوتا ہے دفعِ مضرّت اس مقصود کے بقا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نسخے میں پہلے پرہیز نہیں لکھتے ہیں۔ اوَّلاً مفید دواؤں کو لکھتے ہیں پھر مضر غذاؤں سے پرہیز لکھ دیتے ہیں۔ اب ایک سوال اس مقام پر اور ہوتا ہے وہ یہ کہ مغضوبین اور ضالّین میں یہود و نصاریٰ کو متعین کیوں فرمادیا، مشرکینِ عرب کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ مشرکین کا راستہ بھی صراطِ مستقیم سے دور کرنے والا ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ میں علماء بہت بڑے بڑے تھے جن کی اتباع سے گمراہی کا قوی اندیشہ تھا۔ حدیث شریف میں ہے زَلَّۃُ الْعَالِمِ زَلَّۃُ الْعَالَمِ؎ عالِم کی گمراہی عالَم کی گمراہی کا سبب ہوتی ہے۔یہود اور نصاریٰ کی طرف ان کا علم داعی اور جاذب تھا نیز ان کے اندر کفر اور شرک بھی تھا اس لیے ضمناً سب اہلِ کفر اور شرک بھی مغضوبین اور ضالّین میں داخل ہیں۔ انعام یافتہ بندوں کے راستے کو حق تعالیٰ نے صراطِ مستقیم فرمایا ہے اور ان ہی کے راستے کو ایک جگہ اپنا راستہ بھی فرمایا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا رسول جس راستے کی طرف تمہیں پکارتا ہے یہ میرا ------------------------------