براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہنوز آں ابرِ رحمت درفشان ست خم و خمخانہ بامہر و نشان ست ایک سوال اس مقام پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں حق تعالیٰ نے منعم علیہم کا ذکر مغضوبین اور ضالّین سے پہلے فرمایا ہے حالاں کہ دفعِ مضرّت کو جلبِ منفعت پر مقدم رکھاجاتاہے۔اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ مغضوبین اور ضالّین کے اوپر جو غضب اور ضلالت کے آثار ہیں ان کی شناخت اور ان کی مضرّت کا احساس موقوف ہے کسی منعم علیہم کی صحبت اٹھانے پر۔ کفر اور شرک اور فسق کا قبیح ہونا نیک بندوں کی صحبت کے فیض ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ جو کیڑا ہمیشہ نابدان میں پلا ہو اسے کیا خبر کہ باہر کیا ہے، اس کو نابدان کا گندا پانی ہی آبِ خوشتر اور آبِ حیات معلوم ہوتا ہے۔ پس کفر و شرک اور فسق کے ماحول میں پرورش پایا ہوا انسان جب تک کسی مقبول بندے کی صحبت میں نہ بیٹھے گا اسے کیسے معلوم ہوگا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں؎ کے دہد زندانئے در اقتناص مردِ زندانی دیگر را اخلاص جو خود علایقِ دنیویہ میں مبتلا ہو تو وہ دنیا کا شکار کردہ شخص دوسرے قیدی کو کب خلاصی دِلا سکتا ہے ؎ جز مگر نادر یکے فردانئے تن بزنداں روحِ او کیوانئے مگر وہ نادر مقدّس ذات جس کی روح میں حق تعالیٰ کے ساتھ ایک قوی رابطۂ خاص قائم ہو اس کا جسم تو دنیا میں چلتا پھرتا ہو لیکن اس کی روح عالمِ قدس سے رابطہ رکھتی ہو ایسا شخص جب اﷲ کی طرف پکارتا ہے تو اس کے کلام میں استحضارِ عظمتِ حق اور استحضار معیتِ حق کے انوار ہوتے ہیں جو دوسروں پر بدون اثر کیے نہیں رہتے ؎ شیخِ نورانی ز رہ آگہہ کند نور را بالفظہا ہمرہ کند