براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
بھیڑ کو معیار نہ بنانا چاہیے۔سو اندھے اگر کسی کے پاس معتقدا نہ بیٹھے ہیں تو یہ بھیڑ اس کی مقبولیت اور ولایت کی علامت نہ ہوگی،لیکن اگر امّت کے چند خواص یعنی علمائے متقین صالحین اس کو اپنا بڑا سمجھتے ہیں تو یہ معیار اپنی جگہ پر بے شک معیار ہے۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے بعد حق تعالیٰ شانہٗ نے غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ فرمایا ہے یعنی جس طرح صراطِ مستقیم حاصل کرنے کے لیے انعام یافتہ بندوں کی اتباع ضروری ہے اسی طرح مغضوبین اور ضالّین بندوں کی اتباع سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ میں جلبِ منفعت یعنی حصولِ نفعِ دین کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے اورغَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ میں دفعِ مضرّت کا یعنی دین کو نقصان پہنچانے والے اسباب کے دفاع کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ کے اندر اجمالی طور پر پورا دین رکھ دیا ہے۔ سورۂ فاتحہ کو اسی لیے امّ القرآن بھی کہتے ہیں یعنی قرآن کی ماں، جس طرح ماں اپنے بچے کو پیٹ میں لیے رہتی ہے اسی طرح سورۂ فاتحہ سارا قرآن اپنے اندر لیے ہوئے ہے کیوں کہ سارے قرآن میں یا تو منعم علیہم کا تذکرہ ہے یا مغضوبین اور ضالّین کا تذکرہ ہے۔ سورۂ فاتحہ اجمال ہے اور قرآن اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ میں لفظ غیر فرماکر بتادیا کہ ان کا راستہ غیر صراطِ مستقیم ہے۔ نہ یہ میرے ہیں نہ ان کا راستہ میرا ہے، یہ غیر ہیں ان کا راستہ بھی غیر ہے۔ ان کے غیر ہونے کی علامت یہ ہے کہ ان پر میرے غضب کے آثار ہیں اور ان کا چال چلن ان کی گمراہی کا پتا دیتا ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے۔ جس طرح انعام والے بندوں کے خطابات اپنے اندر انعامات لیے ہوئے ہیں اسی طرح مغضوبین اور ضالّین کے عنواناتِ عتاب اپنے اندر سزا اور عتاب بھی لیے ہوئے ہیں۔ نبوّت اور رسالت کا انعام تو ختم ہوچکا ہے مگر اتباعِ سنّت سید المرسلین صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے فیض سے صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کے انعام کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا ہوا ہے ؎