براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
عالمِ ربّانی عالم باعمل ہوتا ہے، حق تعالیٰ کا خوف اس کے ہر قول اور فعل سے ٹپکتا ہے۔ علمِ حقیقی کی شان یہی ہے کہ اس سے خشیتِ دل پیدا ہوتی ہے۔ حق تعالیٰ کے نزدیک عالم وہی ہے جو اﷲ سے ڈرتا رہتا ہے، فرماتے ہیں: اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؎ وہی بندے خدا سے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خشیتِ الٰہیہ علمِ حقیقی کی ایک لازمی صفت ہے۔ اگر خشیت دل میں نہ ہو تو وہ عالم اﷲ کے نزدیک عالم کے مرتبے میں نہیں ہے۔ صراطِ مستقیم یعنی حق تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہمیشہ متّقی عالم سے حاصل کرنا چاہیے۔ بے عمل عالم جس نے خود اپنی اصلاح کسی بزرگ سے نہیں کرائی ہے اس کا نفس اس کے علم کو اپنی خواہشات کا غلام بنالیتا ہے۔ قرآن اور حدیث کی خاصیت اور خوشبو کو پاکیزہ قلب سے اور پاکیزہ زبان سے حاصل کرنا چاہیے۔ اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے: وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ؎ اس آیت میں حق تعالیٰ نے تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت سے پہلے تزکیۂ نفس کو مقدم فرمایا ہے،اس تقدیم میں حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جب قلب رذائلِ نفسانیہ سے پاک کردیا جاتا ہے تب علمِ کتاب اور علمِ حکمت کے انوار کا وہ محل بنایا جاتا ہے۔ گندی شیشی میں عطر نہیں رکھا کرتے ہیں اور اگر کوئی نادان رکھ دے تو وہ گندی شیشی عطر کو بھی خراب کردے گی۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ ہرچہ گیرد علّتی علّت شود متّقی عالم سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان سے کبھی کوئی معصیت ہی صادر نہیں ہوتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ معصیت پر اصرار نہیں کرتا ہے۔ اگر احیاناً کوئی خطا ہوگئی تو فوراً ------------------------------