براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اس کے حصول کا نافع ذریعہ پہلے بیان فرمادیا یعنی انعام والے بندوں کا ساتھ اختیار کیا جاوے۔ اگر نبی یا رسول موجود ہو تو اس کا ساتھ اختیار کرو ورنہ ان کے بعد ان کے سچے نائبین یعنی علمائے ربانیین کا ساتھ پکڑاجاوے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖیْنَ؎ تم لوگ ربّانی بن جاؤ۔ ربانیین کی تفسیر امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ فرمائی ہے کہ اَیْ کُوْنُوْا عُلَمَاءَ فُقَہَاءَ حُکَمَاءَ؎ اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ ربّانی ہر عالم نہیں ہوا کرتا ہے۔ عالمِ ربّانی بننے کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ وہ فقیہ بھی ہو اور حکیم بھی ہو۔ یہاں حکیم سے مراد حکمتِ یونانی جاننے والا نہیں ہے بلکہ حکمتِ ایمانی جاننے والا مراد ہے۔ حکمت کا ترجمہ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے خوش فہمی سے کیا ہے۔ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم اپنے اصحاب کو کتاب کی تعلیم دیتے ہیں اور خوش فہمی کی۔ دین کی خوش فہمی اسی عالم کو نصیب ہوتی ہے جو اﷲ والا ہوتا ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ اے بسا عالم ز دانش بے نصیب حافظِ علم است آنکس نےَ حسیب اے لوگو! بہت سے عالم دین کی خوش فہمی سے محروم ہیں،وہ صرف علوم کے نقوشِ ظاہری کے حافظ ہیں،حسیب نہیں ہیں ؎ جانِ جملہ علمہا این ست ایں کہ بدانی من کئیم دریومِ دیں تمام علوم کی روح صرف یہ ہے کہ آدمی یہ جان لے کہ کل قیامت کے دن ہماری کیا قیمت ہوگی۔کیوں کہ اہلِ دنیا کو اپنے عیوب کے متعلق دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن حق تعالیٰ کے سامنے تو سب اترے پترے کھل جاویں گے۔ ------------------------------