براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ضرور ہے،سنّت کا طریقہ ہے۔ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ کسی کو مرید کرلینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کو بیٹا بنالیا جائے۔ مرید ہونے سے مرید اور شیخ میں طرفین سے رفاقت کا تعلّق قوی ہوجاتا ہے۔ اور اسی رفاقت ہی پر حصولِ صراطِ مستقیم موقوف ہے۔ حضرت والا کے ارشادات اور تعلیمات کے متعلّق ایک بار ایک شعر موزوں ہوگیا، حالاں کہ میں شاعر نہیں ہوں، مگر بڑے کام کا شعر ہوگیا ؎ ہمیں نقشِ قدم اشرف علی ملحوظ رکھنا ہے جو کچھ فرما گئے ہیں وہ اسے محفوظ رکھنا ہے اوّل مصرعے میں عملی حیثیت کی حفاظت ہے اور ثانی مصرعے میں علمی حیثیت کی حفاظت ہے۔ علمائے ربانیین کے تمام ارشادات سب کے سب قرآن اور حدیث ہی سے مستنبط ہوتے ہیں، ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہاں تک ہماری نگاہ نہ پہنچے۔ علمائے ربانیین پر ایک واقعہ یاد پڑا۔ ایک بار حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے،اسی وقت قصبے میں ہمارے مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا وعظ ہورہا تھا ،حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے ان صاحب سے فرمایا کہ یہاں کیا آئے ہو جاؤ وہاں ایک عالمِ ربّانی کا وعظ ہورہا ہے۔ اوپر جن دو آیتوں میں کافروں کی حسرتوں کو دو عنوان سے حق تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ان دونوں عنوانوں میں سے ایک عنوان حسرت کا یہ ہے کہ کاش!میں نے رسول کا ساتھ اختیار کیا ہوتا۔اس عنوان میں حصولِ منفعت کا طریقہ بتادیا گیا یعنی رسول کے ساتھ اگر راستہ اختیار کیا جاتا تو سیدھی راہ چلتے اور جنّت میں پہنچتے۔دوسرا عنوان حسرتِ کفّار کا یہ ہے کہ اے کاش! میں نے فلاں بُرے ساتھی کو دنیا میں اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔اس عنوان میں دفعِ مضرّت کا طریقہ بتایا گیا ہے یعنی اگر بُرے ساتھی کو دوست نہ بناتے تو اس کے بُرے اخلاق و عادات ہمارے اندر نہ پیدا ہوتے۔ ان دونوں آیتوں کے تقابل سے معلوم ہوا کہ جس طرح حصولِ منفعت ضروری ہے اسی طرح دفعِ مضرّت بھی ضروری ہے۔ پس حق تعالیٰ شانہٗ نے صراطِ مستقیم کے بعد