براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
ہیچ کافر را بخواری منگرید کہ مسلمان بودنش باشد امید مولانا فرماتے ہیں کہ کسی کافر کو بھی حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو کیوں کہ مرنے سے پہلے پہلے اسلام قبول کرنے کی امید اس سے باقی ہوتی ہے۔ ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ کے بعد وَ کَفٰی بِاللہِ عَلِیۡمًا؎ فرما کر یہ بتادیا کہ ہمارے علم میں تمہارے لیے جو بہترین رفیق ہیں یعنی ہمارے مقبول اور پاک بندے نبیین،صدیقین،شہدا،اورصالحین ان کی رفاقت کے حسن اور خوبی میں ذرا بھی شبہ مت کرنا کیوں کہ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا فرمانے والا میں ہوں۔ پس میرا علم تمہارے لیے کافی ہے، اگر تم اپنے ناقص علم سے کام لوگے تو کافروں کی طرح پچھتاؤ گے۔ کفار اپنی خودرائی سے آج کے دن اپنے ناقص مبلغِ علم سے بُرے رفیقوں کا انتخاب کررہے ہیں اور میرے رسول سے اعراض کررہے ہیں۔ کل قیامت کے دن ان ہی کی زبان حسرت سے کہے گی: یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ترجمہ:اے کاش! میں نے رسول کے ساتھ صراطِ مستقیم اختیار کیا ہوتا۔ یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا؎ ہائے افسوس! کاش فلاں کو میں نے اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ جس کے مبلغِ علم اور مبلغِ عقل کا انجام یہی ہے۔وَکَفٰی بِاللہِ عَلِیْمًا کافی وافی علم تو اﷲ کا ہے۔ حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ کی غلامی کا صدقہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ایسے تفسیری لطائف زبان سے کہلوائے۔ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ عادۃ اﷲ یہی ہے کہ بدون کسی بندۂ کامل کے ساتھ تعلق قائم کیے ہوئے اصلاح نہیں ہوتی۔ جس طرح اصلاح فرض ہے اسی طرح اس فرض کا ذریعۂ حصول یعنی کسی مصلحِ کامل سے تعلّق بھی فرض ہے۔بیعت خواہ ہو یا نہ ہو، بیعت کا ہونا فرض نہیں ہے،البتہ برکت کی چیز ------------------------------