براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
صحبت میں ہم بیٹھتے بھی ہوں، ساتھی تو وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ رہا بھی جائے۔ رفاقت کا لفظ اپنے اندر التزامِ صحبت کو لیے ہوئے ہے۔ ابلیس جو مردود ہوا تو نیکوں کا ساتھ چھوڑنے کے سبب ہوا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَپس شیطان نے سجدہ کرنے والوں کا سجدے میں ساتھ دینے سے انکار کیا،اس سے معلوم ہوا کہ نیک بختوں کے نیک کام میں ساتھ رہنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے شیطان سے مواخذہ کس عنوان سے فرمایا ہے؟فرماتے ہیں مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ؎ اے ابلیس ملعون!تجھ کو کیا ہوگیا کہ تونے ساجدین یعنی ملائکہ کا ساتھ نہیں دیا؟ ابلیس نے اس فعل سے تمام ساجدین کی تحقیر کی۔اس امر سے وہ لوگ متنبہ ہوجائیں جو اہلِ دین کی تحقیر کرکے اپنے ایمان کو برباد کرتے ہیں۔ رفق کے معنیٰ لغت میں نرمی کے ہیں، جس میں یہ اشارہ بتادیا کہ ہمارے پاک بندے بڑے رحم دل اور نرم دل ہوتے ہیں،وہ تمہاری تربیت میں بڑی شفقت اور رحمت سے کام لیں گے۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور غضب میں بھی رحمت ہوگی کیوں کہ منشا اس کا تمہاری اصلاح ہے۔ ہمارے حضرت رحمۃاﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس کا پیرٹرّا ہوتا ہے اس کی خوب اصلاح ہوتی ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ سچا پیر عین غصّے اور ڈانٹ ڈپٹ کی حالت میں بھی تم کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر کوئی بات منہ سے نہ نکالے گا۔ حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب کسی مرید کو ڈانتا ہوں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میں بھنگی ہوں اور یہ مرید شاہزادہ ہے، بادشاہ کا حکم ہوا ہے کہ اس کے درّے لگاؤ، لیکن بھنگی کے دل سے پوچھو کہ وہ عین تعمیلِ حکم کے وقت بھی کانپتا رہتا ہے کہ بادشاہ کا رخ کہیں میری طرف سے بدل نہ جائے، وہ بھنگی عین درّے لگانے کے وقت بھی شاہزادے کو شاہزادہ ہی سمجھتا ہے اور اپنے کو بھنگی ہی سمجھتا ہے۔ اﷲ والے تو کافروں کو بھی حقیر نہیں سمجھتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھلا وہ کیا حقیر سمجھیں گے۔ حضرت عارف رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ ------------------------------