براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
مثالوں سے محقّق پیر اور اناڑی پیر کا فرق سمجھ لینا چاہیے ؎ چراغِ مردہ کجا شمعِ آفتاب کجا حق تعالیٰ نے انعام یافتہ بندوں کی جو تفسیر پانچویں پارے میں ارشاد فرمائی ہے اس میں ان کی علامات بھی موجود ہیں یعنی نبوّت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کی جن بندوں پر سرکاری مہریں لگی ہوئی ہیں ان ہی سے سیدھا راستہ حاصل ہوگا۔ نبی کی نبوّت، صدّیق کی صدّیقیت،شہداء کی شہادت،صالحین کی صالحیت پتا دیتی ہے کہ یہ حضرات انعامات سے نوازے گئے ہیں،اور ان نعمتوں کو انعام فرماکر عجیب بات بتادی کہ دنیا کے تمام خزانے ایک طرف اور ہمارے یہ انعامات ایک طرف۔ دنیا اور دنیا کی تمام نعمتیں ان انعامات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں کیوں کہ دنیا کی نعمتوں کو حق تعالیٰ نے متاعِ غرور فرمایا ہے،ان کو انعام نہیں فرمایا ہے، دنیا کی دولت و سلطنت دھوکے کی پونجی ہے۔ انعامِ نبوّت کے بعد انعامِ صدّیقیت کا درجہ ہے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ صدّیق آئینۂ نبوّت ہوتا ہے۔نبیین، صدّیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ رفاقت سے صراطِ مستقیم یعنی سیدھا راستہ ملتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان حضرات کے متعلق وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا فرمایا ہے اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ان انعام پانے والے بندوں کو حق تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں تو یہ محض خبر دینا نہیں ہے بلکہ اس خبر سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنا رفیق بنالو۔ ہم فرما رہے ہیں کہ یہ بہت اچھے ساتھی ہیں،تم اپنی سمجھ سے نہ جانے کس بدترین کو اپنا ہم قرین بنالو۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں ؎ مہرِ پاکاں درمیانِ جاں نشاں دل مدہ الّا بمہرِ دل خوشاں پاک بندوں کی محبت کو اپنی جان میں پیوست کرلو،خبردار دل کسی کو مت دینا مگر ان کو جن کے دل اﷲ کی محبت سے اچھے ہوگئے ہیں: