براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست مولانا فرماتے ہیں کہ اے لوگو!بہت سے ابلیس آدمی کی صورت میں پھرتے ہیں، پس ان ابلیس خصلت انسانوں کے ہاتھ میں اپنا دین مت سونپ دینا۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے صراطِ مستقیم فرمانے کے بعد ان افراد کی علامت بھی بیان فرمادی جن کے ذریعے صراطِ مستقیم پر چلنا نصیب ہوتا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ سے اہل اﷲ کی صحبت اختیار کرنے پر اس قدر قوی استدلال ہے جس کا انکارردّالنصوص کے مترادف ہے۔انعام پانے والے بندے سیدھے راستے پر چل کر دربار سے انعام حاصل کرچکے ہیں،وہ دربار تک پہنچے ہیں تمہیں بھی دربار تک پہنچادیں گے۔ دربار تک پہنچا ہوا بندہ محقق ہوتا ہے،اس کی بات میں یقین کا نور ہوتا ہے جو سامع کے دل کو متأثر کردیتا ہے۔ برعکس اناڑی جو خود راستہ طے نہیں کیے ہوئے ہے اس کی بات میں یقین کا اثر نہیں ہوتا ہے، جو کچھ بزرگوں کی کتابوں سے علوم اور معارف چرا کر بیان بھی کرتا ہے تو وہ باتیں اس کی زبان سے بہکی بہکی سی معلوم ہوتی ہیںکیوں کہ وہ خود ان باتوں کی لذّت سے ناآشنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے امرتی کبھی نہ کھائی ہو اور وہ کسی کتاب سے پڑھ کر یا کسی امرتی کھانے والے سے سن کر امرتی کی لذّت کو بیان کرے تو اس کے چہرے اور لب و لہجہ سے امرتی کی لذّت کا درجۂ حال اور درجۂ یقین ظاہر نہ ہوگا۔ ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ یک نظر میں آشیاں گم گشتہ کو بھانپ لیں ہم ہیئتِ پرواز سے دوسری مثال غیرمحقّق کی یہ ہے کہ جیسے ایک شخص جغرافیہ کا نقشہ دیکھ کر امریکا کا راستہ کسی کو سمجھا رہا ہو اور دوسرا شخص جو امریکا کو خود آنکھوں سے دیکھ آیا ہو اور وہ کسی کو امریکا کا راستہ سمجھا رہا ہو،دونوں کی باتوں میں اور لب و لہجے میں اور طرزِ تقریر میں باعتبارِ کیفیت اور حالت اور یقین کے زمین اور آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ ان ہی دونوں