براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
کے باطنی پھول یعنی نسبت مع اﷲ کے فیوض و برکات کی خوشبو پاکیزہ طبائع کی غذا ہوتی ہے۔ صراطِ مستقیم یعنی دین کا راستہ اﷲ والوں کی صحبت کے بدون ملنا محال ہے۔ اور یہ دعویٰ ہمارا نہیں ہے،قرآن کا دعویٰ ہے۔ سورۂ فاتحہ میں صراطِ مستقیم کی حق تعالیٰ نے جو تفسیر فرمائی ہے اسی کے اندر یہ دعویٰ موجود ہے کیوں کہصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ میں صراطِ مستقیم کا بدل ہے اور بقاعدۂ نحو مقصود بدل ہی ہوا کرتا ہے، درخواست ہی میں بتادیا کہ تم جو سیدھا راستہ مجھ سے طلب کرتے ہو تو وہ سیدھا راستہ ہمارے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ اور ایک جگہ حق تعالیٰ نے اسی مضمون کو اور مؤکد فرمایا ہے،فرماتے ہیں: وَ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ؎ جو بندے کہ میری طرف متوجہ ہیں ان کا راستہ اختیار کرو۔ظاہر ہے کہ اﷲ کی طرف متوجّہ رہنے والے اور رجوع کرنے والے اﷲ والے ہی ہوتے ہیں۔ بندہ اﷲ والوں ہی کے ذریعے اﷲ کے دربار میں پہنچتا ہے۔ راستے کی سیدھائی راہ بر کی سیدھائی پر موقوف ہے اور راستے کی کجی راہ بر کی کجی سے ہوتی ہے۔ ایک ناواقف مسافر جب اسٹیشن پر اترتا ہے تو اپنا سامان ہر مدّعی راہ بر کے حوالے نہیں کرتا ہے ،وہ فوراً قلی کی تلاش میں لگ جاتا ہے،قلی کی خاص وردی دیکھ لینے پر بھی مطمئن نہیں ہوتا جب تک قلی کے بازو پر سرکاری نمبر نہیں دیکھ لیتا اور جب اس نمبر کو محفوظ کرلیتا ہے تب اس کی اقتدا کرتا ہے، سارا سامان اس کے حوالے کرکے اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے، منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دنیا کے نمونے آخرت کے لیے نمونۂ عبرت ہیں۔ جب دنیا کا سامان بدون قلی کا نمبر معلوم کیے ہوئے اس کے حوالےنہیں کرتے ہیں تو دین ہی کیا ایک ایسا سستا سودا ہے جو ہرکس و ناکس کے سپرد کردیا جائے؟ مولانا فرماتے ہیں ؎ ------------------------------