براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ؎ ترجمہ:وہ انعام یافتہ یعنی انعامِ نبوّت سے مشرف بندہ اپنی قوم کو دینی دعوت دے کر یہ کہتا ہے کہ اے میری قوم!میں تم لوگوں سے اس پر (یعنی دعوتِ توحید پر) کچھ معاوضہ نہیں مانگتا، میرا معاوضہ تو صرف اس کے ذمے ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے، پھر کیا تم نہیں سمجھتے؟ یہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ عجیب عبرت کا کوڑا ہے کہ بھلا وہ شخص جو بدون معاوضہ اپنا کاروبار چھوڑ کر اﷲ کی طرف تم کو بلاتا ہے تو باقتضائے عقل تمہیں ایسے شخص کی نسبت بدگمانی کی راہ نہیں ہے، بدگمانی کی راہ تو اس وقت تھی جبکہ وہ تم سے یہ کہے کہ میری فیس ایک رات تقریر کرنے کی مثلاً پچاس روپے ہیں۔ افسوس کہ اس زمانے میں ایسے ہی لوگوں کو عوام اپنا مقتدا اور امام بھی بنائے ہوئے ہیں ؎ اِذَا کَانَ الْغُرَابُ دَلِیْلَ قَوْمٍ سَیَہْدِیْہِمْ طَرِیْقَ الْہَالِکِیْنَ جب کسی قوم کا راہ بر کوّا بن جائے گا تو عن قریب قوم کو ہلاک ہونے والوں کا راستہ دکھاوے گا۔ اﷲ والا دین کو اس طرح بیچتا نہیں پھرتا ہے، ان کے اندر ایک خاص شان استغنا کی ہوتی ہے، اور یہ استغنا تکبر کے سبب نہیں ہوتا ہے بلکہ غلبۂ توحید کے سبب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شانِ استغنا کے باوجود وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے ہیں،ان کے اخلاق ایسے پاکیزہ ہوتے ہیں کہ کتنے بندے محض ان کے اخلاق سے متأثر ہوکر ہدایت پاجاتے ہیں۔ حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ کی شان میں رمزی اٹاوی نے خوب لکھا ہے کہ ؎ ------------------------------