براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
متقین بندوں کو اہل اﷲ کہتے ہیں۔اہل اﷲ کا ترجمہ زبانِ محبّت میں یہ کرتا ہوں: اہل اﷲ یعنی اﷲ کے گھر والے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ ہاں و ہاں ایں دلق پوشان من اند صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند مولانا حق تعالیٰ کی طرف سے حکایتاً فرماتے ہیں کہ ہاں وہاں یعنی خوب سن لو کہ یہ گدڑی پوش ہمارے خاص بندے ہیں، ہمارے تعلقِ خاص کی برکت سے ان کا ایک تن لاکھوں انسانوں سے ایک امتیازی شرف رکھتا ہے ؎ ضعفِ قطب از تن بود در روح نےَ ضعف درکشتی بود در نوح نےَ قطب کا ضعف صرف تن میں ہے یعنی مجاہدات اور کثرتِ طاعات سے نیز غلبۂ محبت سے ان کا جسم تو بظاہر کمزور ہے لیکن باطن میں تعلّق مع اﷲ کے فیض سے ایسی قوت رکھتے ہیں جس کے سامنے تمام مادی قوتیں ہیچ ہیں۔ یہ ضعف صرف کشتی میں ہے نوح علیہ السلام میں نہیں ہے۔ ان کے قلب کو چوں کہ انعام ولایتِ کا شرف حاصل ہے اس لیے وہ ہفتِ اقلیم کی طرف رخ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے جب شاہِ سنجر نے عرض کیا کہ حضرت!آپ کی خانقاہ کا خرچ بہت ہے اگر اجازت ہو تو نیمروز کا ملک خانقاہ کے لیے وقف کردوں۔حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کے جواب میں دو شعر لکھ کر بھیج دیے ؎ چوں چتر سنجری رُخِ بختم سیاہ باد گر در دلم بود ہوس ملکِ سنجرم آں گہہ کہ یافتم خبراز ملکِ نیم شب من ملک نیمروز بیک جو نمی خرم