براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
وہ دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہ کردے اس وقت تک اس عورت کو اپنی جھلنی کے متعلّق تشویش ہے۔ اسی طرح مرنے سے پہلے اپنے اعمال کے متعلق ہم اپنی رائے سے کیسے سمجھ لیں کہ یہ قابلِ قبول بھی ہیں، معیار اور کسوٹی کھوٹے کھرے ہونے کی تو میاں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اﷲ مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں،اس ڈر کا کبھی ان سے انقطاع اور انفکاک نہیں ہوتا ہے۔اگر کسی کے قلب سے یہ ڈر نکل جائے تو اسی وقت اس کی ولایت بھی ختم ہوجائے کیوں کہ ولایت کے لیے تقویٰ کی شرط لگی ہوئی ہے اور شرط کے فوت ہونے سے مشروط کا فوت ہونا لازم آتا ہے۔ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر آپ کے یہاں کوئی معزز اور محترم مہمان آجائے اور آپ رات دن اس کا اکرام اور ہر طرح سے اس کی ضیافت و مہمان نوازی کرلیں لیکن مہمان کے رخصت ہونے کے وقت میں آپ کا دل کھٹکتا ہے کہ نہ معلوم اس مہمان معزز کے مزاج پر کون سی بات گراں خاطر ہوئی ہو، کیوں کہ ضیافت اور مہمان نوازی تو ہم نے اپنی عقل اور اپنی طبیعت و مذاق کے مطابق کی ہے،مہمان کے مذاق اور مزاج کا پورا علم نہ کسی کو ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ چناں چہ رات دن ساتھ رہنے والے خادموں کو سالہا سال مزاج شناسی سکھانے کے باوجود ان سے بعض خدمات مزاج کے خلاف ہوہی جاتی ہیں، جب ہم کو اپنی طبیعت کا اور مزاج کا یقینی علم پوری طور پر نہیں ہوتا ہے تو دوسروں کی طبیعت جو ہمارے احساس سے بھی الگ تھلگ ہے اس کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔ طبائع اور امزجہ کا یقینی علم مخلوقات کے لیے حاصل ہونا عقلاً محال ہے۔ یہ صرف خالق کی شان ہے جو اپنے پیدا کیے ہوئے تمام ذرّات کے اتصال اور انفصال سے پورا پورا باخبر ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ؎ بھلا کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ہے اور وہ بہت باریک بیں اور پورا باخبر ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جب وہ معزّز مہمان رخصت ہونے لگتا ہے تو میزبان صدہا اکرام اور خدمات کے باوجود ادب سے عرض کرتا ہے کہ آپ کی کما حقہٗ ہم سے خاطر نہ ------------------------------