براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
آں نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پشتِ من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے (سعدیؔ رحمۃ اﷲ علیہ ) ایک عاشقِ صادق کہتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے یعنی میں شکست خوردوں کی طرح پشت دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہوں، میں وہ ہوں کہ تو میراسراس وقت خاک اور خون کے درمیان لتھڑا ہوا دیکھ لے گا۔ یَتَّقُوْنَ کے لفظ سے ولایت کی خاص علامت حق تعالیٰ نے بتادی کہ میرا ولی بندہ مجھ سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اور کیوں ڈرتا ہے؟ محبّت کے مارے، کہ میاں نہ معلوم میرے ان اعمال سے خوش ہیں یا ناخوش ہیں۔ ایک بزرگ حافظ امام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو شاہ گلزار صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ تھے، ان کا واقعہ یاد پڑا کہ وہ کہیں چلے جارہے تھے کہ کسی دیہاتی ہندو نے ہندی زبان میں یہ شعر گایا ؎ جھلنی تو گڑہایوں پیا اپنے مناسے پیا منا بھاولا کہ نائے ایک عورت اپنے شوہر کو خطاب کرکے کہتی ہے کہ اے پیا!یعنی اے میرے شوہر! جھلنی (جو کہ ایک زیور ہے ناک میں عورتیں پہنتی ہیں) تَو اپنی طبیعت کے پسند سے بنوالیا ہے لیکن معلوم نہیں ہے کہ آپ کو بھی پسند آوے یا نہ آوے اور مطلب تو صرف پیا کی پسند سے ہے۔ اس شعر کا سننا تھا کہ حضرت حافظ امام الدین صاحب جو صاحبِ نسبت بزرگ تھے، سرِ راہ بے ہوش ہوگئے،ایک حال طاری ہوگیا۔ جب ہوش ہوا تو احباب نے عرض کیا کہ حضرت آپ بے ہوش کیوں ہوگئے؟ فرمایا کہ اس ہندی شعر سے میرے قلب پر ایک کیفیت طاری ہوگئی، حق تعالیٰ کی پسندیدگی اور اپنے اعمال کی گندگی کا نقشہ اس شعر میں نظر آگیا یعنی اس عورت کو اپنے شوہر سے اس درجہ عشق ہے کہ وہ اپنے زیور سے خوش نہیں ہے،محض اس بنا پر کہ ابھی میرے شوہر نے اس کو دیکھا نہیں ہے، جب تک