براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
کی فکر بھی ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ پس تقویٰ یعنی خدا کا خوف تمام اعمال و احکام پر پابندی اور تمام گناہوں سے پرہیز سب کا ذریعہ ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے،ایمان بالغیب اور تقویٰ کے اندر سارا دین جمع فرمادیا ہے۔ اور یَتَّقُوْنَ صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ہمارے اولیاء ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں،مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں۔ اس ڈر ہی کے سبب انتقال کے وقت ان کے کان میں لَا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا کی بشارت دی جاتی ہے۔ یعنی دنیا میں بہت ڈر چکے، اتنا ڈرتے تھے کہ گوشۂ چشم سے بھی غیر محرم پر نگاہ نہ کرتے تھے، اب عالم بدل رہا ہے،دنیا میں ہمارے خوف سے تم ہر وقت غمگین رہتے تھے آج کے دن لَا تَخَافُوْاسے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی یعنی اب خوف مت کرو اورغم نہ کرو۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ لَا تَخَافُوْا ہست نزلِ خائفاں یعنی نہ ڈرنے کی بشارت ڈرنے والوں ہی کو دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کسی بے خوف سے یہ نہیں کہا کرتے ہیں کہ تم خوف مت کرو، حق تعالیٰ کا اپنے اولیاء سے موت کے وقت لَا تَخَافُوْافرمانا صاف دلیل ہے کہ ان کے اندر خوف بھرا ہوا تھا۔ ہر نہی اپنے مخاطب کے اندر منہی عنہ کے اثبات کی دلیل ہوتی ہے۔ یَتَّقُوْنَ کے لفظ سے حق تعالیٰ نے اپنے دربارِ خاص سے غیر مخلصین کو اور فاسقین فاجرین کو نکال دیا ؎ عشق از اوّل چرا خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عشق اوّل وہلہ میں خونی کیوں نظر آتا ہے تاکہ غیر مخلص اور مدّعئ کاذب ہمّت ہار کر راہِ فرار اختیار کرلے۔ اسی مضمون کو ہمارے خواجہ صاحب نے یوں فرمایا ہے کہ ؎ بڑی عشق میں ہیں بہاریں مگر ہاں گھری خارزاروں سے پھلواریاں ہیں غیر عاشق ایک زخم لگنے سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے اور عاشقِ صادق کی شان یہ ہوتی ہے کہ ؎