براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
جس مٹکے میں سمندر سے راستہ ہوجاتا ہے اس کے سامنے بہت سے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ الغرض حق تعالیٰ کی دوستی کے لیے جن دو شرطوں کا آیت اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ کے اندر ذکر ہے یعنی ایمان بالغیب اور تقویٰ ان دونوں شرطوں کا حصول عالمِ ارواح میں روح کے لیے ممکن نہ تھا کیوں کہ وہاں تو تمام مغیبات سامنے تھیں اور تقویٰ کے اسباب نہ تھے۔ روح مجرد میں اعضا تھے ہی نہیں جن سے گناہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، اور تقویٰ کی تعریف یہ ہے کہ گناہ کی خواہش اور تقاضے پیدا ہوں اور پھر خوفِ حق سے ان تقاضوں پر عمل نہ کرے۔ عالمِ ارواح میں ایسے اسباب مطلقاً موجود نہ تھے۔ نہ وہاں غضب کا مادہ تھا، نہ وہاں شہوت کا مادہ تھا، نہ وہاں ان تقاضوں پر عمل کرنے کے اسباب تھے۔ وہاں صرف بندے رہتے۔ ہماری عبدیت پر ولایت کا تاج وہاں نہ رکھا جاتا۔ میاں کی رحمت نے اور ان کے کرمِ عظیم نے ارواح کو اجسام کے ساتھ دنیا میں بھیج کر بڑا احسان فرمایا ہے کہ آج اس عالمِ ناسوت میں ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے کیسے کیسے غوث اور ابدال و اقطاب و اوتاد اور نجباء و نقباء پیدا ہوئے ہیں اور نہ جانے کتنے بے شمار اولیاء اﷲ روئے زمین پر ہوتے رہیں گے۔ میاں کے اس کرم پر جان قربان کردینا چاہیے کہ غلاموں کو دوست بنانے کے لیے روحوں کو اعضا عطا فرماکر دنیا میں بھیجا ہے۔اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ از و حمامِ تقویٰ روشن است دنیا کی یہ خواہشات مثل بھٹی کے ہیں، جب ان خواہشات کے تقاضوں کو حق تعالیٰ کی مرضی میں بندہ جلادیتا ہے تو اس سے تقویٰ کا حمام روشن ہوجاتا ہے۔ لفظِ تقویٰ ایسا جامع لفظ ہے جو اپنے اندر دین کے تمام جزئیات اور کلیات فروع اور اصول کو لیے ہوئے ہے کیوں کہ جب ڈر ہوگا تو تمام احکام کو بجالانے کی فکر ہوگی، اسی طرح تمام گناہوں سے بچنے