براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
خم کہ از دریا درو راہے شود پیشِ او جیحونہا زانو زند جس مٹکے کے اندر کوئی نلکی سمندر سے لگی ہو اور اس راستے سے اس مٹکے میں سمندر سے پانی جوش ماررہا ہو تو وہ مٹکا دیکھنے میں تو بظاہر مٹکا ہے لیکن اس کے فیضِ عظیم کے سامنے بڑے بڑے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب دادا پیر رحمۃ اﷲ علیہ بھی تھے،صرف کافیہ تک تعلیم تھی لیکن قلب میں ایک راستہ حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے ملا ہوا تھا جس کا اثر یہ تھا ؎ بینی اندر خود علومِ انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا حضرت حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا ظاہری مبلغِ علم تو صرف کافیہ تک تھا لیکن ؎ خم کہ از دریا درو راہے شود پیشِ او جیحونہا زانو زند حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ،حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسے چوٹی کے علمائے ہند آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے تھے۔ اور حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تو فرماتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کے علم ہی سے معتقد ہوکر ان کا مرید ہوا ہوں۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے یہاں مثنوی شریف کا جو درس ہوتا تھا اس میں علمائے ہند کے علاوہ بیرونِ ہند کے علماء بھی شریکِ درس ہوتے تھے۔ بات کیا تھی؟ بات وہی تھی ؎ خم کہ از دریا درو راہے شود پیشِ او جیحونہا زانو زند