براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
آفتابِ حق سے انوار آتے ہیں اس کی شعاعیں بحکمِ الٰہی طالبِ صادق کے قلب پر بتدریج اپنا اثر کرتی رہتی ہیں۔ ایک مدت کے بعد وہ اپنے باطن میں محسوس کرتا ہے کہ روز بروز طاعات میں جی لگتا جاتا ہے اور گناہوں سے دل ہٹتا جاتا ہے،یہی مطلب ہے صوفیا کے اس قول کا کہ اس کا دل نورانی ہوگیا۔ حاشا وکلّادل میں نور آنے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دل میں کوئی لالٹین یا گیس جل جاتی ہے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا پیر شمس الدین تبریزی آفتابِ حق ہے ؎ شمس تبریزی کہ نورِ مطلق است آفتاب است و ز انوارِ حق است حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ اﷲ علیہ نورِ مطلق ہیں، وہ خود ایک آفتاب ہیں اور اس آفتاب کے انوار حق تعالیٰ کے انوار سے مستفاد ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے قلب میں حق تعالیٰ کے انوار کس راہ سے آتے ہیں؟ اس کا جواب بھی حضرت رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ درمیان شمس دیں روزن رہے ہست روزنہا نہ شد زاں آگہے اس آفتابِ حقیقی اور عارفین کے قلوب کے درمیان ایک مخفی راستہ ہے جس سے حق تعالیٰ کے نفحاتِ کرم پے درپے آتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ اس دریچۂ باطنی سے آگاہ نہیں ہیں،ان ہی باطنی نعمتوں کے متعلق حضرت شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مرادا ٓبادی رحمۃ اﷲ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ ؎ جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں حضرت مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے عارفین کاملین کی اس جلالتِ شان کو دوسری جگہ یوں فرمایا ہے ؎