براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؎ اور ہم تمہارے رفیق تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اس آیت میں ولایتِ حیاتِ دنیوی کی تقدیم سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی رفاقت اور ولایت کے لیے دنیا کی حیاتِ اوّل ظرف ہے یعنی اوّلاً دنیا میں ایمان بالغیب اور تقویٰ اختیار کرکے حق تعالیٰ کی ولایت یعنی دوستی سے بندہ مشرّف ہوتا ہے پھر اسی عالمِ ناسوت کی یعنی دنیا کی دوستی آخرت میں بھی کام آتی ہے یعنی ولایت فی الآخرۃ دراصل ولایت فی الحیاۃ الدنیا ہی کا ثمرہ ہوتی ہے، جو دنیا میں حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا وہ آخرت میں بھی حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا۔ ہمارے حضرت مرشدی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبوّت کا دروازہ بند ہوا ہے ولایت کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نبوّت محض وہبی نعمت ہے اور ولایت کو بندوں کے اختیار میں دے دیا ہے کیوں کہ ایمان اور تقویٰ دونوں امورِ اختیاریہ سے ہیں اور جوش میں فرمایا کہ اب بھی حضرت غوثِ پاک رحمۃ اﷲ علیہ کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ موجود ہیں، کرسیاں خالی نہیں ہیں سب پُر ہیں ؎ ہنوز آں ابرِ رحمت درفشاں است خم و خمخانہ بامہر و نشان است (اس وقت حضرت والا رحمۃ اﷲ علیہ پر ایک خاص حالت طاری ہوگئی تھی۔) البتہ ایمان اور تقویٰ اگرچہ امورِ اختیاریہ سے ہیں لیکن ان کے اختیار کرنے میں مجاہدات اختیار کرنے پڑتے ہیں ایمان تو بفضلہٖ تعالیٰ ہم لوگوں کو حاصل ہی ہے صرف جزءِ ثانی یعنی تقویٰ کی تحصیل کے لیے کوشش اور مجاہدہ کرنا ہے۔ اسی مجاہدے کے متعلق ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ برسائیں گے جب خونِ دل اور خونِ جگر ہم دیکھیں گے تبھی نخلِ محبت میں ثمر ہم ------------------------------