براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
دیں تاکہ تمہاری عبدیت پر ہم اپنی ولایت یعنی دوستی کا تاج رکھ دیں۔ کیوں کہ ہماری دوستی کے لیے دو شرطیں ہیں (۱)ایمان بالغیب اور (۲)تقویٰ۔ ارشاد فرماتے ہیں: اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ؎ ترجمہ: یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ناک واقعہ پڑنے والا ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر مغموم ہوتے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ ان کو خوفناک اور غمناک حوادث سے بچاتا ہے اور وہ اﷲ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور معاصی سے پرہیز رکھتے ہیں یعنی ایمان اور تقویٰ سے اﷲ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ ہمارے مرشدی حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس مقام پر فائدہ کے تحت تحریر فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے دوستوں سے جس خوف اور جس غم کی نفی فرمائی ہے اس خوف سے خوفِ حق اور غم سے غمِ آخرت مراد نہیں ہے بلکہ دنیوی خوف اور غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال دین کے مخالفین سے ایذا رسانیوں سے ہوسکتا ہے وہ مؤمنین کاملین کو نہیں ہوتا کیوں کہ ہر وقت ان کو اﷲ تعالیٰ پر اعتماد ہوتا ہے، ہر واقعہ کی حکمت کا اعتقاد ہوتا ہے۔؎ اس آیت میں یَتَّقُوۡنَ کا صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر خاصیت تجدّدِ استمراری ہوتی ہے جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اولیاء اﷲ خوفِ حق سے اور غمِ آخرت سے ہروقت ڈرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کا پتا بتادیا ہے کہ ہماری ولایت یعنی دوستی کا شرف تم کو کب نصیب ہوگا؟ جب تم ان دو شرطوں کو پورا کردکھاؤ گے اور وہ دو شرطیں کیا ہیں؟ ایمان بالغیب اور تقویٰ۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ------------------------------