براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
تمہارے ہم جنس ہیں یعنی تم بھی انسان ہو اور یہ شاہانِ دنیا بھی انسان ہیں لیکن ان کی وضع داری ان کو اس امر سے مانع ہوجاتی ہے کہ اپنے غلام کو دوست کے لقب سے یاد کریں۔ مگر میری عطا اور میرے کرمِ بے مثال کو دیکھو کہ ہم تمہارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں، تمہارے جسم کے ظاہر اور باطن کا ہرذرّہ ہمارا مملوک ہے، ہماری مخلوق ہے اور ہمارا پرورش کیا ہوا ہے، ہم نے تم کو عدم سے وجود بخشا ہے ،ہم نے تمہاری آنکھوں کو بینا بنایا ہے، کانوں کو سننے والا بنایا ہے، زبان کو گویائی بخشی ہے، ناک میں سونگھنے کی قوت عطا فرمائی ہے، دماغ میں عقل اور فہم کا خزانہ رکھا ہے، ہاتھ پاؤں ایسے جوڑ دار بنائے ہیں جن سے مختلف کاموں کے وقت مختلف طرز سے تم کام لیتے ہو اور تمہارا ہر ذرّہ ہر وقت ہماری قدرتِ قاہرہ اور قدرتِ غالبہ کے تحت ہے۔ فرماتے ہیں وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ اور وہ ذات پاک ہے اپنے بندوں پر غالب القدرۃ ہے۔ اتنی عظمت اور جلالتِ شانِ الوہیت کے باوجود ہم اپنے کرم سے تمہیں اپنا دوست بنالیتے ہیں، ہم تمہارے ایسے مولیٰ ہیں جو تم غلاموں کو دوست بنالینے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام صفات میں ہماری ایک صفت وَدُوْدٌ بھی ہے یعنی بہت محبت کرنے والا۔ پس ہماری شانِ محبت کا مقتضایہ ہے کہ ہم غلاموں کو دوست کے خطاب سے نواز دیتے ہیں۔ ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُ؎وہ یعنی اﷲ بہت بخشنے والا اور بہت محبت فرمانے والا ہے۔ میں اس کا ترجمہ بزبانِ محبت میں یہ کیا کرتا ہوں کہ میاں بندوں کو اس آیت سے اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ہم تمہیں کیوں بخش دیتے ہیں جانتے ہو؟ پھر خود ہی فرماتے ہیں کہ زیادہ محبت کی وجہ سے۔ تمہاری مغفرت کا سبب ہماری محبت کا اقتضاہے۔ یہ عجیب ربط یہاں غفور اور ودود کا سمجھ میں آیا ہے۔ قرآن کے لطائف بھی عجیب ہیں ؎ مخدرات سراپردہ ہائے قرآنی چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی ہماری محبت کا تقاضا تھا کہ ہم تمہیں عالمِ ارواح سے ایک مدت عمر کے لیے دنیا میں بھیج ------------------------------