براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
بڑے اچھے کارساز ہیں۔ ہمارے حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ نے وکیل کا ترجمہ کارساز فرمایا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں ؎ کار سازِ ما بفکرِ کارِ ما فکرِ ما در کارِ ما آزارِ ما حضرت فرماتے تھے کہ میں نے مصرعۂ اولیٰ میں ترمیم کی ہے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے فکر کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ فکر مستلزم ہے تغیر کو اور ہر تغیر مستلزم ہے حدوث کو اور حدوث منافی ہے ذات واجب الوجود کے۔ مولانارومی رحمۃ اﷲ علیہ پر اس وقت محبتِ الٰہیہ کا حال غالب تھا اور مغلوب الحال معذور ہوتا ہے۔ میں نے اس میں یہ ترمیم کی ہے ؎ کار سازِ ما بسازِ کارِ ما فکرِ ما در کارِ ما آزارِ ما حق تعالیٰ نے وکالتاً بندوں کی طرف سے صراطِ مستقیم کی ہدایت کے لیے درخواست نازل فرمائی جو سورۂ فاتحہ میں مذکور ہے۔ اسی درخواست کی منظوری میں تیس پارے کا قرآنِ پاک نازل فرمایا گیا۔ صراطِ مستقیم بتاکر حق تعالیٰ نے روح کو یہ بتادیا کہ عالمِ ارواح سے جدا کرکے عالمِ ناسوت یعنی دنیا میں تجھے بھیجنے کا مقصد تجھ کو اپنے سے دور کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تجھے ہم اپنی ایسی معرفت عطا فرمادیں جس کی بدولت تو میری دوستی کے قابل ہوجاوے۔ اندھا اگر مقرب ہی ہو تو اس کوقرب کا لطفِ تام حاصل نہ ہوگا۔ دنیا میں تجھے بینا بنانے کے لیے بھیجا ہے، یہاں تیری آنکھیں ایمان اور تقویٰ کے نور سے بنائی جاویں گی اور عالمِ آخرت میں یہی بنی ہوئی آنکھیں کھول دی جائیں گی۔ عالمِ ارواح میں تم صرف بندے اور غلام رہتے اور اس عالم میں بھیج کر ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے ہم تمہیں اپنا دوست بنالیں گے۔ کیا یہ معمولی انعام ہے کہ آقا اپنے بندے اور غلام کو دوست بنالے۔ دنیا میں اپنے غلام کو کوئی بادشاہ دوست بنانا تو بڑی بات ہے زبان سے بھی غلام کو دوست کہنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں حالاں کہ سلاطینِ دنیا بشریت میں