براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
جو آبگینہ یعنی قلب اپنے اندر نورِ جان یعنی تعلق مع اﷲ نہیں رکھتا ہے وہ دل نہیں ہے وہ محض قارورہ کی شیشی ہے جس میں مریض اپنا پیشاب حکیموں کے پاس لے جاتا ہے۔ دل کب دل ہوتا ہے؟جب اس کے اندر حق تعالیٰ کے ساتھ مستقل رابطہ قائم ہوجائے۔ اسی کو ایک بزرگ مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی فرماتے ہیں ؎ شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا اور ہمارے خواجہ صاحب مجذوب فرماتے ہیں ؎ آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل الغرض روح نے غلبۂ طبیعت کے سبب زبانِ حال سے اپنی جدائی کا غم بیان کیا تو حق تعالیٰ کی رحمت کو جوش ہوا۔ حضرت مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ ہر کجا دردے دوا آنجا رود ہر کجا رنجے شفا آنجا رود ہر کجا پستی است آب آنجا رود ہر کجا مشکل جواب آنجا رود جہاں درد ہوتا ہے وہیں اس کی دوا پہنچتی ہے، جہاں مرض ہوتا ہے وہیں اس کی شفا پہنچتی ہے، جہاں پستی ہوتی ہے اسی طرف پانی اپنا رخ کرتا ہے، جہاں مشکل ہوتی ہے وہیں اس کا جواب پہنچتا ہے ؎ تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح پیاسے جہاں میں پانی ڈھونڈتے ہیں اسی طرح پانی بھی اپنے پیاسوں کو ڈھونڈتا ہے۔