براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
اور جب میں پاس ہوں گا تو میرے قرب کی نعمت تم کو میرے ماسوا سے بے پروا اور مستغنی کردے گی۔ پس جس قدر ذکرِ کامل نصیب ہوگا اسی قدر تبتل کامل نصیب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کو مطلقاً ترک کرے،کسی پہاڑ کے غار میں جابیٹھیں، اسلام نے تو رہبانیت کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں تعلق مع اﷲ کا غلبہ اس قدر رہے کہ غیراﷲ دل میں داخل نہ ہوسکے۔ اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں ؎ آب در کشتی ہلاک کشی است آب اندر زیر کشتی پشتی است کشتی کے اندر پانی کا داخل ہوجانا کشتی کی ہلاکت کا سبب ہے لیکن کشتی کے نیچے پانی کا رہنا اس کی پشتی ہے۔ اس شعر کے اندر مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک علمِ عظیم رکھ دیا ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو معرفت کا بڑا حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس شعر کے اندر ترکِ دنیا کا طریقہ ارشاد فرمادیا یعنی سب سے قطع کرکے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں تعلقات ماسوااﷲ داخل نہ ہونے پائیں یعنی بقدرِ ضرورت کسبِ معاش کے لیے اسباب میں مشغولی تبتل کے خلاف نہیں ہے۔ جس طرح کہ پانی اگر کشتی کے نیچے بھی نہ رہے تو کشتی چلے کیسے؟ لیکن اگر دنیا کے تعلقات دل میں داخل ہوگئے تو اس صورت میں قلب کی ہلاکت ہے کیوں کہ قلب ایک نازک آبگینہ ہے جو صرف شہنشاہِ حقیقی کا مسکن ہے یہی وجہ ہے کہ دل کی غذا صرف ذکر اﷲ ہے،حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ؎ خوب غور سے سن لو کہ دلوں کو چین صرف میری یاد سے نصیب ہوتا ہے۔ اسی کو حضرتِ عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ آں زجاجے کو ندارد نورِ جاں بولِ قارورہ است قندیلش مخواں ------------------------------