براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
مجاہدات کے دریائے خون سے گزرے تھے ،جب یہ انوار قلب میں پیدا ہوئے تھے ؎ عارفاں زانند ہر دم آمنوں کہ گزر کردند از دریائے خوں مولانا فرماتے ہیں کہ عارفین ہر وقت امن اور چین میں اس سبب سے ہیں کہ انہوں نے رضائے حق کے لیے دریائے خون عبور کیا ہے یعنی نہ جانے کتنی کتنی مشقتیں نفسانی تقاضوں کو روکنے میں جھیلی ہیں اور استقامت علی الاعمال اور دوامِ ذکر کے لیے کیسی کیسی محنتیں کی ہیں ؎ محرمِ ایں ہوش جز بے ہوش نیست مرزباں را مشتری جز گوش نیست مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ہوش یعنی تعلّق مع اﷲ کا غلبہ کس کو نصیب ہوتا ہے جو اس عالم سے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس بے ہوشی کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعلقاتِ ضروریہ کی حفاظت اور تعلقاتِ غیر ضروریہ سے انقطاع اختیار کرتا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؎ ترجمہ:(اے ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم!) آپ اپنے رب کا نام یاد کرتے رہیے اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہیے۔ حق تعالیٰ نے اس آیت میں ذکرِاسم رب کو مقدم فرماکر یہ بتا دیا کہ تمام علائق سے دل خالی کرکے ہماری طرف بالکل متوجہ رہنے کی توفیق جب ہی ہوتی ہے جب ہمارا نام لیا جائے۔ غلبۂ ذکر سے تبتل کی قوت قلب میں پیدا ہوتی ہے، کیوں کہ میں ذاکر بندے کا ہم نشین اور جلیس ہوتا ہوں کَمَا ہُوَ فِی الْحَدِیْثِ: اَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ؎ ------------------------------