براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:(اے ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم!) آپ فرمادیجیے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم بلا شرکتِ غیر اﷲ تعالیٰ کے مقبول ہو تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کردو، اور وہ لوگ بوجہ ان اعمال کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں کبھی اس کی (یعنی موت کی) تمنا نہ کریں گے، اور اﷲ کو ان ظالموں کی خوب اطلاع ہے۔ مشاہدہ ہے کہ نافرمانی سے ایک حجاب پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا میں اس کے نمونے موجود ہیں کہ جب کوئی غلام اپنے آقا کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کرتا ہے تو پھر وہ آقا کے سامنے آنے سے خائف ہوجاتا ہے، ہروقت اس کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ آقا کے ہاتھ میں اگر آگیا تو سینکڑوں جوتے سر پر برسیں گے۔ یہ خوف تو باغی اور سرکش کو ہوتا ہے، اور کبھی فرماں بردار غلام سے بھی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں اس صورت میں بھی غلام کو آقا سے حجاب ہوتا ہے لیکن اس خوف کی شان دوسری ہوتی ہے اس خوف میں عفو کی امید بھی شامل رہتی ہے۔ ایسا غلام آقا کے سامنے تو جاتا ہے لیکن غلبۂ ندامت سے اس پر سکوت کا عالم طاری رہتا ہے اور لطف اور راز و نیاز کی باتیں کچھ دن کے لیے ملتوی ہوجاتی ہیں،یہی حال صدورِ معصیت کے بعد سالکین کا ہوتا ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے ؎ اُحِبُّ مُنَاجَاۃَ الْحَبِیْبِ بِاَوْجُہٍ وَلٰکِنَّ لِسَانَ الْمُذْنِبِیْنَ کَلِیْلٗ ترجمہ: میں محبوب کے ساتھ سرگوشی کو بہت سے عنوانات سے محبوب رکھتا ہوں لیکن گناہ گاروں کی زبان نافرمانیوں کے استحضار سے گونگی ہوجاتی ہے۔ یعنی کوتاہیوں کے بعد طاعات اور ذکر و مناجات میں ایک بستگی سی قلب میں محسوس ہونے لگتی ہے اور اتنے ہی سے سالکین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں ؎ بر دلِ سالک ہزاراں غم بود گر ز باغِ دل خلالے کم بود مولانا فرماتے ہیں کہ سالک پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں، جب اُن کو اپنے باغِ دل میں ایک خلال کی بھی کمی نظر آتی ہے کیوں کہ یہ خلال بھی بڑی مشقت سے ہاتھ لگا تھا،