براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
یعنی خوشبو سے غیر مانوس اور متوحش ہوگئی تھی۔ اسی طرح کفار دنیا کی چند روزہ ظاہری زندگی کی فانی لذتوں میں مشغول ہوکر اورمسلسل نافرمانیوں میں غرق ہوکر اصل بہارِ آخرت سے غیر مانوس ہوگئے ؎ وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہ بازی کر گس گِدھ کو کہتے ہیں جو مردار کھاتا ہے۔ اس کے برعکس اولیاء اﷲ کی ارواح طاعات اور تقویٰ کے انوار سے اپنی فطری اور طبعی نورانی مزاج کی محافظ ہی نہیں ہوتیں بلکہ اپنی نورانیت میں ترقی کرکے ملائکہ سے بھی سبقت لے جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صالحین اور متقین بندے ہر وقت موت کے لیے متمنی رہتے ہیں، ان کا میلان ہروقت عالمِ آخرت کی طرف رہتا ہے۔ حضرت رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ شد صفیرِ باز جاں در مرج دیں نعرہ ہائے لَا اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ مولانا فرماتے ہیں کہ عارف باﷲ روح کی آواز دنیا میں یہ ہوتی ہے کہ میں فنا ہونے والی چیزوں سے محبت نہیں کرتی۔ موت کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ؎ موت ایک پُل ہے جو ایک دوست کو اپنے دوست سے ملانے والا ہے۔ اوراس کے برعکس جب یہودیوں نے کہا کہ ہم لوگ اولیاء اﷲ ہیں تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۶﴾وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ؎ ------------------------------