براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
بے سوالی بھی نہ خالی جائے گی دل کی بات آنکھوں سے پالی جائے گی روح کا زبانِ حال سے یہ سوال کرنا عین اقتضائے فطرت ہے کیوں کہ جو شئے اپنے مرکز سے کٹ کر جدا ہوتی ہے اس کو اضطراب ہونا طبعی امر ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ ؎ ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش باز جوید روزگار وصلِ خویش مولانا فرماتے ہیں کہ یہ قاعدۂ کلیہ ہے کہ جب کوئی شئے اپنے اصل اور طبعی مرکز و مستقر سے کسی قسری اور قہری قدرت سے جدا کردی جاتی ہے تو وہ شئے پھر اپنے زمانۂ وصال کی متلاشی رہتی ہے۔جس طرح مچھلی اگر جبراًیا اتفاقاً پانی سے باہر آجاتی ہے تو وہ پھر پانی کی طرف عود کرنے کے لیے بے چین اور تڑپتی رہتی ہے۔ اسی طرح روح چوں کہ عالمِ ارواح سے جدا ہوئی ہے اس لیے پھر اسی باغ و بہار کی طالب ہے۔ اب کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ کافر کی روح تو دنیا ہی کے بہار میں رہنا چاہتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شئے کی خاصیت کا ظہور عدمِ موانع سے مشروط ہوتا ہے پس کفار کی ارواح سے بسبب ان کے کفر اور طغیانی اور سرکشی کے ان کی طبعی اور فطری خاصیت بالکلیّہ باطل ہوجاتی ہے یعنی مسلسل نافرمانیوں کی ظلمتوں سے روح کا وہ نورانی مزاج جو عالمِ ارواح سے منتقل ہونے کے بعد اس میں موجود تھا وہ فاسد ہوکر اپنی فطری خاصیت کا فاقد (یعنی ضایع کرنے والا) ہوجاتا ہے جیسے پائخانہ سونگھتے سونگھتے بھنگی کی ناک کا مزاج بدل جاتا ہے۔ چناں چہ مثنوی شریف میں ایک بھنگی کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ اتفاق سے کسی عطّار کی دکان سے گزرا اور عطر کی خوشبو سونگھتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس پر گلاب چھڑکا اس کی بے ہوشی اور بڑھتی گئی،اس کے بھائی کو جب خبر ہوئی تو وہ فوراً سمجھ گیا اور جلد ہی سے تھوڑا سا پائخانہ لاکر اس کی ناک پر رکھ دیا جب بدبو اس کے دماغ کو پہنچی تو فوراً اس کو ہوش آگیا اور اچھا ہوگیا۔تو معلوم ہوا کہ بدبو سونگھتے سونگھتے اس کی ناک اپنی اصل غذا