براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
دنیا میں آنے کے بعد ادھر تو روح کے لیے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی موت اس امر کو مقتضی تھی کہ ؎ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے دوسری طرف جسدِ عنصری کے تعلّق کی وجہ سے نفسانی خواہشات یعنی غضب و شہوت کے تقاضے اپنے اندر محسوس ہوئے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کے صحیح اور غلط دونوں راستے سامنے نظر آئے مثلاً تقاضائے شہوت کی تکمیل کے لیے اپنی بیوی بھی سامنے ہے جو اس کا صحیح مصرف ہے اور غیر محرم عورتوں کا ہجوم بھی سامنے دیکھا جو اس کا غلط مصرف ہے۔ اسی طرح ہر خواہش کے سامنے پاکیزہ اور غیر پاکیز ہ دونوں راستے دیکھ کر روح کو سخت پریشانی اور کشمکش کا سامنا ہوا کیوں کہ نفس کا داعیہ شر کی طرف جاذب تھا اور عقل کا داعیہ خیر کی طرف جاذب تھا اور عالمِ ارواح میں روح نے ایسی کش مکش کو نہ تو کبھی دیکھا تھا نہ کبھی سنا تھا۔ اسی طرح دنیا میں بہت سے تعلقات کے حقوق سر پر آپڑے۔ اﷲ تعالیٰ کے حقوق کا لحاظ الگ ہے، والدین کے حقوق کی الگ فکر ہے ،بیوی اور بچوں کے حقوق کی الگ فکر ہے،اپنے نفس اور پڑوسیوں کے حقوق الگ سامنے ہیں، دوست احباب کے حقوق الگ پیشِ نظر ہیں، پھر ان تمام حقوق میں تعارض اور تقابل کے وقت وجہ ترجیح اور وجہ تقدیم و تاخیر کو سمجھنا ایک مستقل مسئلہ سامنے ہے۔ عالمِ ارواح میں روح کو چوں کہ ان مراحل سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا اس لیے روح کو ایک تو سب سے بڑا غم اپنے اصلی وطن یعنی عالمِ ارواح سے جدائی کا تھا ہی اس پر مزید افکار اور ہموم و غموم حقوقِ مذکورہ کے رکھ اٹھے۔ ایسی صورت میں روح نے بزبانِ حال حق تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے میاں!آپ نے ہمیں عالمِ ارواح سے اس عنصری قالب میں محبوس فرما کر ان جھگڑوں میں کیوں بھیج دیا۔ سوال کبھی زبان سے ہوتا ہے اور کبھی زبان تو چپ رہتی ہے لیکن اس کا حال اس کے سوال کی غمازی کرتا ہے۔ ہمارے خواجہ صاحب اسی کو فرماتے ہیں ؎