براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
رنگِ شک و رنگِ کفران و نفاق تا ابد باقی بود بر جانِ عاق شک اور کفر و نفاق کا رنگ ابد تک نافرمان کی روح پر باقی رہے گا۔ رو ح کا علاقہ اس جسم کے ساتھ جس نوعیت کا ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ہم کسی اور کے مملوک ہیں۔جب تک اس روح کا مالک چاہتا ہے اس وقت تک روح کو جسم کے اندر باقی رکھتا ہے اور جب اس مالک کا حکم ہوجاتا ہے کہ اب تیری میعادِ عمر ختم ہوچکی اب تو میرے پاس لوٹ: اِرۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ؎ ترجمہ: (اے روح! اب) تو اپنے پروردگار کی طرف (واپس) چل۔ اس وقت تمام دنیا کے فلاسفہ اور سائنس دان عاجز اور حیران ہوجاتے ہیںاور اہلِ سائنس خود بھی سائیں سائیں کرتے ہوئے موت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ مردہ پڑا ہوا ہے آنکھیں کھلی ہیں لیکن اب دیکھتی نہیں ہیں۔ مادّی ترقیات کے تمام عیش و راحت کے ذخیرے اب بے کار ہیں۔ اسی کو جج اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے ؎ قضا کے سامنے بیکار ہوتے ہیں حواسِ اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں اور ہمارے خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ جہاں دراصل ویرانہ ہے گو صورت ہے بستی کی بس اتنی سی حقیقت ہے فریبِ خوابِ ہستی کی کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے اس وقت مردہ بزبانِ حال یہی کہتا ہے کہ ؎ جام تھا ساقی تھا مےتھی اور در میخانہ تھا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ------------------------------