براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
منظور ہے تو ان کو گھر سے نکال کر کھیت میں ڈال دیں، پھر ایک مدتِ خاص کے بعد دیکھو گے کہ ہر بیج اپنے خوشوں میں سینکڑوں دانے لیے ہوئے ہے۔ بیج کے اندر جس عظیم القامت درخت بننے کی صلاحیت موجود ہے اس کے ظہور کے لیے اس کا عالم دوسرا ہے یعنی اس کو مٹی میں دبادیا جائے، پھر دیکھو گے کہ اسی ننھے بیج سے کتنا قد آور تنا،کتنی شاخیں،کتنے پھول پھل نکلتے ہیں۔ روح کے لیے یہ عالمِ آخرت کی کھیتی ہے۔ حق تعالیٰ نے دنیا کو حرثِ آخرت فرمایا ہے:مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ؎ جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کو اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے، اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہو تو ہم اس کو کچھ دنیا دے دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ روح کی یہ گھبراہٹ غلبۂ طبیعت کے سبب ہوئی کیوں کہ عالمِ ارواح میں روح میں عناصرِ اربعہ یعنی خاک،باد،آب،آتش کی طبیعتوں میں امتزاج نہ تھا۔ اس لیے وہاں سکون ہی سکون تھا۔ لیکن دنیا میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ قاہرہ سے ان مختلف اور متضاد طبیعتوں کے عناصر کو قالبِ انسانی میں جمع فرمادیا۔ قدرتِ قاہرہ کا ترجمہ قدرتِ غالبہ ہے، ہمارے مرشدِ پاک حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے قہر کا ترجمہ غلبۂ قدرت سے فرمایا ہے۔ روح کے اندر حق تعالیٰ نے ایسی خاصیت اور قوت رکھی ہے جو ان متضاد کیفیات کے عناصر کو ان کے مرکز اور مستقرِّطبعی کی طرف عود کرنے سے قسراً اور قہراً رو کے رہتی ہے۔ چناں چہ حکمِ الٰہی سے جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو پھر بمقتضائے اصل فطرت اور قاعدہ کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ (ہرشئے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے) ہر عنصر جسم سے نکل کر اپنے طبعی مرکز کی طرف چل دیتا ہے۔ اسی کو مولانا رومی ر حمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ ------------------------------